• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 60912

    عنوان: نبی پاک کے دور میں شفقت کامعاملہ ہوتا تھا، تین طلاق ایک ما نا جاتا تھا ، اب ایک مجبور عورت اس دور میں نبی پاک سے کیسے درخوواست کرے کہ وہ اس کے حق میں فیصلہ دیں اور طلاق نہ ہو جیسے خوالہ نام کی عورت نے کیا تھا

    سوال: میں ابو ظہبی ، عرب امارات ، سے لکھ رہا ہوں، اگر مرد لڑنے کے دوران شدید غصے میں تین سے زیادہ دفعہ طلاق دے ، اس کے بعد اسی دن ہمبستری کرلے یہ کہہ کر لڑنے کے دوران وہ اسے قتل کرنے کی نیت میں تھا اور قتل پر قابو کرنے کے لیے طلاق لفظ کا سہارا لیا تاکہ غصے کی شدت پر قابو پایا جائے۔ عورت کے مطابق تین طلاق ہوئی ہے ، لیکن مرد کہتاہے کہ ایک دفعہ طلاق دی تھی اور اب ہمبستری بھی کا چکا ہے۔ (۱) کیا یہ طلاق جنون کے زمرے میں آئے گی؟ (۲) نبی پاک کے دور میں شفقت کامعاملہ ہوتا تھا، تین طلاق ایک ما نا جاتا تھا ، اب ایک مجبور عورت اس دور میں نبی پاک سے کیسے درخوواست کرے کہ وہ اس کے حق میں فیصلہ دیں اور طلاق نہ ہو جیسے خوالہ نام کی عورت نے کیا تھا ۔ (۳) اب مرد مکر گیا ہے کہ اس نے کچھ نہیں کہا ہے ،کچھ ہوا ہی نہیں تو اب عورت کیا کرے ؟ کیوں کہ اس کے پاس کوئی گواہ نہیں جو طلاق کی گواہی دے ؟ایسے میں مرد کی بات مانی جائے گی تو کیا طلاق نہیں ہوگی؟ براہ کرم، رہنمائی فرمائیں۔

    جواب نمبر: 60912

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 989-1055/N=12/1436-U (۱) آپ نے مرد کا بیان یہ نقل کیا کہ اس نے لڑائی کے دوران قتل کے غصہ پر قابو پانے کے لیے طلاق کا سہارا لیا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا غصہ جنون کے درجہ کا نہیں تھا، پس یہ جنون کی طلاق نہ ہوگی۔ (۲) آپ نے جس حدیث کا حوالہ دیا ہے، اس پر روایت اور درایت دونوں اعتبار سے کلام ہے (تفصیل عمدة الاثاث فی حکم الطلقات الثلاث میں دیکھیں) پس وہ آپ کے مسئلہ میں کچھ مفید نہیں۔ (۳) اگر آپ نے اپنے کانوں سے تین بار طلاق کے الفاظ سن لیے ہیں اور شوہر کے مذکورہ بالا کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے طلاق کے وقت جنون نہیں تھا تو گواہ نہ ہونے کے باوجود آپ پر دیانتاً اپنے علم کے مطابق عمل کرنا واجب وضروری ہے، یعنی: آپ اپنے کو شوہر سے الگ رکھیں، انھیں اپنے اوپر قابو نہ دیں اور کسی طرح قضاء بھی خلع وغیرہ کے ذریعہ اپنا نکاح ختم کرلیں قال في رد المحتار (کتاب الطلاق، باب الصریح ۴: ۴۶۳ ط: مکتبہ زکریا دیوبند) والمرأة کالقاضي إذا سمعتہ أوأخبرہا عدل لا یحل لہا تمکینہ، والفتوی علی أنہ لیس لہا قتلہ، ولا تقتل نفسہا؛ بل تفدي نفسہا بمال أو تہرب کما أنہ لیس لہ قتلہا إذا حرمت علیہ، وکلما ہرب ردتہ بالسحر، وفي البزازیة عن الأوزجندي أنہا ترفع الأمر للقاضي، فإن حلف ولا بینة لہا فالإثم علیہ اھ قلت: أي: إذا لم تقدر علی الفداء أو الہرب ولا علی منعہ عنہا فلا ینافي ما قبلہ اھ وقال في باب الرجعة منہ (۵: ۵۵) أما في الدیانة لو کانت عالمة بالطلاق فلا یحل اھ․


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند