• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 60813

    عنوان: میں نے اپنی بیوی کو فون پر غصے میں دو بار یہ لفظ بولے ہیں کہ میں تجھے فارغ کرتا ہوں مطلب کہ فارغ کردونگااورایک باریہ کہامیں نے تجھےآزاد کردیا ہے.

    سوال: میں نے اپنی بیوی کو فون پر غصے میں دو بار یہ لفظ بولے ہیں کہ میں تجھے فارغ کرتا ہوں مطلب کہ فارغ کردوں گا اورایک باریہ کہامیں نے تجھے آزاد کردیا ہے ۔اکیلی جگہ پر تو باربارفون کاٹ ری ہے نہ اپنی ماں سے یا اپنے باپ سے کہنا اب آرام سے تیری شادی کرائیں عدّت گزارنے کے بعد وہ یہی چاھتے تھے نہ کے تجھے طلاق ہوجائے . مگرمیری نیت بیوی کوآزاد کرنے کی نہیں تھی. میں اسے ڈرانے کہ لئے بول رہا تھا کہ وہ سدھر جائے اوراپنے گھرواپسی آجائے میری بدنامی نہ بنائیں لوگوں میں.اگرمیں نے اسے طلاق دینی ہوتی تومیں اسے طلاق والے الفاظ کہتا۔ برائے مہربانی مجھے بتائیں کے طلاق ہوئی کے نہیں ؟میں کبھی یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ میں اپنی بیوی کو طلاق دوں گا اس لئے میں نے یہ الفاظ بولے میری سمجھ کے مطابق ان الفاظ سے نیت ہونے پر طلاق ہوتی ہے . مفتی صاحب جواب جلدی دیجئے گا ۔میں پھلے بھی کافی بار ای میل کرچکا ہوں۔

    جواب نمبر: 60813

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 738-703/Sn=11/1436-U ”میں تجھے فارغ کرتا ہوں“ کنایات طلاق میں سے ہے، ان سے وقوعِ طلاق نیت پر موقوف ہے، اگر آپ نے واقعةً طلاق کی نیت نہیں کی تو ان الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، اگرچہ دو مرتبہ آپ نے دہرایا ہو؛ البتہ بعد میں جو آپ نے کہا ”میں نے تجھے آزاد کردیا“ اس سے ایک طلاق رجعی پڑی؛ اس لیے کہ یہ بمنزلہ صریح ہے، اس سے بلانیت بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے، خلاصہ یہ ہے کہ بہ شرط صحت سوال صورت مسئولہ میں آپ کی بیوی پر صرف ایک طلاق رجعی پڑی، عدت کے اندر رجعت کی گنجائش ہے، عدت گزرجانے پر باہم رضامندی سے نکاح کرسکتے ہیں، ”حلالہ“ کی ضرورت نہیں۔ (خیر الفتاوی: ۵/۱۲۲)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند