معاشرت >> طلاق و خلع
سوال نمبر: 605189
عورت خلع كا مطالبہ كب كرسكتی ہے؟
ہمارے یہاں پھوپھی زاد لڑکے اور ماموں زاد لڑکی کی شادی ہوئے 7 یا 8 سال ہوئے ، 3 لڑکے ہیں بڑا لڑکا ایب نارمل ہے ، لڑکی کا شوہر نہ کماتا ہے نہ خرچ اٹھاتا ہے چرس پیتا ہے اور نشہ میں مارتا پیٹتا ہے ، وقت کے ساتھ اس کی غیرذمہ داری اور زیادتیوں میں اضافہ ہی ہوتا جاتا ہے پہلے بھی چھوٹی تسلیاں ملتی رہی ہیں لڑکی پہلے بھی طلاق کا مطالبہ کرچکی ہے پھر صبر کرلیتی تھی بچوں کے لیے لیکن اب زیادتیوں اور زلت کے باعث تنگ آکر علیحدگی چاہتی ہے ، وہ یہ معلوم کرنا چاہتی ہے کہ وہ خلع لے سکتی ہے اپنے شوہر سے کورٹ کے ذریعے ؟ لڑکی کے ددھیالی جو کے لڑکے کے ننھیالی رشتہ دار ہیں وہ اس سلسلے میں رکاوٹ ڈالتے ہیں کہ تمام زیادتیاں برداشت کرو کیونکہ علیحدگی شریعت میں ناپسندیدہ ہے بس جو ہے نصیب کا لکھا ہے اللّٰہُ کی مرضی یہی ہے ۔
جواب نمبر: 605189
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 908-135T/M=11/1442
نکاح ایک دائمی پاکیزہ رشتہ ہوتا ہے اس کو نباہنے اور بحال رکھنے کی ہرممکن کوشش ہونی چاہئے۔ بلاوجہ شرعی طلاق یا خلع کے ذریعہ اس محترم رشتے کو ختم کرنا شرعاً ناپسندیدہ عمل ہے، اس سے حتی الامکان بچنا چاہئے اور رشتے کو ٹوٹنے سے بچانا چاہئے۔ لیکن جب میاں بیوی کے درمیان اس درجہ کشیدگی بڑھ جائے کہ موافقت کی تمام تر تدبیریں ناکام ہوجائیں اور شرعی حدود کی خلاف ورزی ہونے لگے اور معاملہ ناقابل برداشت ہوجائے تو ایسی سنگین صورت حال میں طلاق یا خلع کے ذریعہ اس رشتے کو ختم کردینے کی شرعاً گنجائش ہے۔ صورت مسئولہ میں اگر شوہر کے متعلق مذکورہ شکایات درست ہیں اور یہ امر واقعہ ہے کہ شوہر نہ کماتا ہے نہ بیوی بچوں کا خرچ اٹھاتا ہے اور نشے میں مارتا پیٹتا بھی ہے اور بیوی، شوہر کی زیادتیوں پر صبر کرتے کرتے تنگ آچکی ہے، شوہر کے رویے میں تبدیلی آنے کے بجائے روز بروز اس کی زیادتیوں میں اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے اور بیوی کو طلاق دیکر زوجیت سے آزاد بھی نہیں کرتا تو ایسی صورت میں بیوی، شوہر سے خلع کا مطالبہ کرسکتی ہے، وہ ازخود خلع نہیں لے سکتی۔ اگر شوہر خلع کو منظور کرتے ہوئے خلع دیدے تو خلع ہوجائے گا ورنہ اس کی منظوری کے بغیر کورٹ کو بھی خلع دینے کا اختیار نہیں، ہاں اگر شوہر طلاق نہ دے اورخلع کے لیے بھی آمادہ نہ ہو اور بیوی کے حقوق بھی پورے نہ کرے تو ایسی صورت میں عورت اپنے شوہر کے ظلم و تعنت سے نجات پانے کے لئے شرعی پنچایت میں معاملہ دائر کرسکتی ہے۔ شرعی پنچایت سے ہی اس معاملے کا شرعی حل نکل سکتا ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند