معاشرت >> طلاق و خلع
سوال نمبر: 602111
مظاہر اگر ساٹھ روزے کی استطاعت نہ رکھے تو کیا مدرسے میں رقم دے دینا کافی ہے ؟
ایک شخص نے اپنے بیوی سے ظہار کیا، اب وہ کفارہ میں روزہ رکھنے کی استطاعت نہیں رکھتا، کیا وہ ساٹھ مسکینوں کی کھانے کی رقم مدرسہ میں دے سکتا ہے ؟ اور وہ رقم پاکستانی روپے کی اعتبار سے کتنی ہے ؟ کیا نابالغ بچے کو کھانادینے سے کفارہ ادا ہوجائے گا؟
جواب نمبر: 602111
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:404-103/sn=6/1442
استطاعت کیوں نہیں رکھتا؟ سوال میں اس کی وضاحت آنی چاہئے تھی، بہر حال اگر کوئی شخص روزہ رکھنے کی استطاعت نہیں رکھتا یا تو اس لئے کہ وہ بہت بوڑھا ہے یا پھرایسی بیماری میں مبتلی ہے کہ اس سے صحت یابی کی امید نہیں ہے تو اس کے لئے روزے کے بہ جائے کھانے کھلانے کے ذریعے کفارہ ظہار ادا کرنے کی گنجائش ہے نیز اگر کھانا نہ کھلاکر اناج یا اس کی قیمت دیدے تو بھی کافی ہے ، واضح رہے کہ ادائیگی کفارہ کے لئے ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا یا اتنی ہی تعداد کو اناج یا اس کی قیمت دینا ضروری ہے ، جس کی ایک صورت یہ ہے کہ ساٹھ مسکینوں کو ایک ہی دن میں صبح وشام دو وقت کا کھانا کھلادیا جائے یا ہرایک کو صدقة الفطر کی مقدار غلہ یا اس کی قیمت دیدی جائے ۔ اور اس کی دوسری صورت یہ ہے کہ ایک مسکین کو ساٹھ دن مسلسل کھانا کھلایاجائے یا اس کی قیمت دی جائے ۔(اس میں حکماساٹھ مسکینوں کا تحقق ہورہا ہے )۔ واضح رہے کہ تعدادِ فقرا کا لحاظ کئے بغیر مجموعی رقم فقرا کو دے دینا وغیرہ ادائیگی کفارہ کے لئے کافی نہ ہوگا۔
الغرض اگر کسی مدرسے کا مہتمم قابلِ اعتماد ہو اور وہ یہ ذمے داری لے کہ آپ کی رقم سے ہم مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق ساٹھ مستحق زکات طلبہ کو کھانا کھلائیں گے یاانھیں قیمت دیں گے تو بہ طور وکیل قیمتِ طعام مہتمم کے حوالے کرنے کی گنجائش ہوگی ورنہ نہیں ۔(2) قیمت کے ذریعے ادا کرنے کی صورت میں ساٹھ مسکینوں کو صدقة الفطر کے بہ قدر غلہ کی قیمت دینی ہے جیساکہ اوپر ذکر کیا گیا ہے ، پاکستانی روپیے سے اس کا حساب کیا بنتاہے ، یہ کسی مقامی معتبر مفتی سے معلوم کرلیں۔(2) اگر بچے قریب البلوغ اور مراہق ہوں تو کافی ہوجائے گا ورنہ نہیں ۔
(فإن عجز عن الصوم) لمرض لا یرجی برؤہ أو کبر (أطعم) أی ملک (ستین مسکینا) ولو حکما، ولا یجزء غیر المراہق بدائع (کالفطرة) قدرا ومصرفا (أو قیمة ذلک) من غیر المنصوص، إذ العطف للمغایرة (وإن) أراد الإباحة (فغداہم وعشاہم) ، أو غداہم وأعطاہم قیمة العشاء، أو عکسہ، أو أطعمہم غدائین، أو عشائین، أو عشاء وسحورا وأشبعہم (جاز) بشرط إدام فی خبز شعیر وذرة لا بر (کما) جاز (لو أطعم واحدا ستین یوما)(الدر المختار)والحاصل أن دفع القیمة إنما یجوز لو دفع من غیر المنصوص، أما لو دفع منصوصا بطریق القیمة عن منصوص آخر لا یجوز إلا أن یبلغ المدفوع الکمیة المقدرة شرعا، فلو دفع صاع تمر تبلغ قیمتہ نصف صاع بر لا یجوز، وعلیہ أن یتم لمن أعطاہم القدر المقدر من ذلک الجنس الذی دفعہ لہم، فإن لم یجدہم بأعیانہم استأنف فی غیرہم. وتمامہ فی البحر...(قولہ: أو غداہم وأعطاہم قیمة العشاء) أی یجوز الجمع بین الإباحة والتملیک لأنہ جمع بین شیئین جائزین علی الانفراد، وکذا یجوز إذا ملک ثلاثین وأطعم ثلاثین وکذا یجوز تکمیل أحدہما بالآخر بحر ففی کافی الحاکم: وإن أعطی کل مسکین نصف صاع من تمر ومدا من حنطة أجزأہ ذلک (قولہ: أو أطعمہم غدائین) أی أشبعہم بطعام قبل نصف النہار مرتین، وقولہ: أو عشائین: أی أشبعہم بطعام بعد نصف النہار مرتین، کذا فی الدرر. وہذا ظاہر فی أن ذلک فی یوم واحد، فلا تکفی فی یوم أکلة وفی آخر أخری لکن صریح ما یأتی فی الفروع آخر الباب یخالفہم (قولہ: وأشبعہم) أی وإن قل ما أکلوا کما فی الوقایة فالشرط فی طعام الإباحة أکلتان مشبعتان لکل مسکین، ولو کان فیہم شبعان قبل الأکل، أو صبی غیر مراہق لم یجز بحر وسیأتی أیضا، وقدمنا أن الصواب ذکر الصبی ہنا لا فی التملیک․ (الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 5/ 143 و بعدہ، باب کفارة الظہار، مطبوعة: مکتبة زکریا، دیوبند)
(أمر غیرہ أن یطعم عنہ عن ظہارہ ففعل) ذلک الغیر (صح) وہل یرجع؟(المصدر السابق)
نیز دیکھیں:بہشتی زیور: اختری(3/15،اور4/60)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند