• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 60210

    عنوان: حلالہ درست ہوا یا نہیں؟

    سوال: عمرکی بیوی سے بڑی غلطی سرزدھوئی جس پر عمر نے طلاق دیدی۔عمر کے سسرنے عمر کے قد موں میں اپنی ٹوپی رکھد ی اورکہا میرے گھرکی عزت بچا لو۔میری بیٹی کو جھاڑو برتن پرھی( یا جیسے تم چاہو کسی بھی طرح) اپنے گھرمیں رکھلو تمہارا بڑا احسان ھوگا۔ اسطرح تو میرے د وسرے بچوں کارشتہ بھی نہیں آئیگا۔ عمر سے اپنے سسر کی تڑپ وپریشانی دیکھی نہیں گئی۔عمر نے بغیرسوچے سمجھے جلد بازی میں کہد یاآپ فکر نہیں کریں میں اسکو رکھ لوں گا کوئی راستہ نکال لوں گا یہ میرا وعدہ ھے ۔ اسکے بعدعمر بہت فکرمند تھاکہ یہ وعدہ کسطرح پوراکیاجائے،عمر نے یہ پورا معاملہ اپنے گھرکے بڑوں کوبتایاانہوں نے کہا نوکرانی بناکررکھنا جائز نہیں اس سے تمہارا ایک بیٹا بھی ہے تم حلالہ کرا کر اپنے نکاح میں رکھ سکتے ہو اس صورت میں تمہارا وعدہ بھی پوراہوجائیگا،اوربچہ کی تربیت بھی ( بالاخرعمرکے گھروالوں نے ایک رشتہ دارسے عمر اورسسرکے د رمیانی تمام گفتگوبتائی وہ نکاح کیلئے تیارہوگیا) عمر کے والدنے اپنی بہوسے اجازت لی کہ تمہارا نکاح فلاں شخص سے پڑھواد وں ، اس نے اجازت دیدی۔ (1) عمرکے والدنے اپنی بہو کا نکاح ایک رشتہ دارسے د وگواھوں کے درمیان پڑھواد یاآیا یہ نکاح درست ہوا؟ کیوں کے لڑکی کے والد کونکاح کی خبرنہیں دی(کچھ خیال بھی دماغ میں نہیں آیا) اسلیئیکہ انھوں نے اپنے دامادسے کہا تھا جیسے تم چاہو کسی بھی طرح اپنے گھرمیں رکھ لو مجھے بچالو بد نامی سے ۔ (2) رشتہ دارنے مہر د یکر کچھ دن اپنی زوجیت میں رکھی اور اپنی مرضی سے طلاق دیدی، لیکن عمرکے سسر کاکہناہے کہ یہ حلالہ صحیح نہیں ہوا (جب کہ انکی بیٹی نے عدت بھی کرلی اب میکے میں ہے ) حلالہ کس قدر صحیح ہوا؟ یا بالکل نہیں؟ اگرنہیں توعمریااسکے گھروالے کس قد رگناہ کے مرتکب ھیں ۔ (3) عمر کے سسراسی بات سے ناراض ھیں کہ انکونکاح کی خبرنہیں دی، ولی نہیں بنایا،جب کہ انہوں نے اپنے دامادکوپورا اختیاردیاتھا اوپرگزرا جیسے تم چاہو کسی بھی طرح اپنے گھرمیں رکھ لو تمہارا بڑا احسان ھوگا۔؟کیاانکی ناراضگی درست ہے ؟کیااپنی لڑکی سے بات نہ کرناد رست ہے ؟کئی سال سے گھرمیں بٹھاکرشادی نہ کرناد رست ہے ؟ ان سب باتوں میں یہ کس قد رگناہ کے مرتکب ھیں؟ (4) عمرنے اپنے بیٹے کوخرچہ بھیجنے کی حتی الامکان کوشش کی لیکن سسرنے سختی سے منع کر دیا اورکہا ہمیں کچھ نہیں چا ہئے ،خود بھی خرچہ نہیں اٹھاتے ،لڑکی کماکر بچے کاخرچہ چلاتی ہے ۔اسکا گناہ کس پرہوگا؟سسر یا بچے کے باپ پر(جس پر اسکوکیاکرناچاہئِے ) (5) عمراپنے بیٹے کوخرچہ بھیجنے کے لئے اسکی ماں سے بات کرے یابچے کی پڑھائی کے متعلق، تو اس صورت میں نامحرم سے بات کرنا کوئی گناہ تونہیں؟ (6) عمر بیٹے کو اپنے پاس بلاناچاہتاہے لیکن اسکوخد شہ ہے بچے کی ماں یا، سسر نہیں بھیجینگے ، توانکوکس عمرتک بچے کو اپنے پاس رکھناجائز ہے ۔ باپ کے حوالے کرتے وقت کچھ پیسوں کامطالبہ انکے لیئیجائزہے ؟اگرہے ،تو کتنا ۔ مثال کے طورپرعمر اپنے بیٹے کوخفیہ طریقہ پرخرچہ بھیجتا رہا تو اس صورت میں انکا مطالبہ کس قد ر جائز ہے ؟

    جواب نمبر: 60210

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 814-812/N=9/1436-U (۱) اگر یہ نکاح عدت کے بعد ہوا اور شرعی طریقہ پر ہوا یعنی: شرعی گواہوں کی موجودگی میں باقاعدہ ایجاب وقبول کے ساتھ ہوا تو لڑکی کے والد کی عدم موجودگی یا اس نکاح سے ان کی لاعلمی کے باوجود یہ نکاح شرعاً درست وصحیح ہوگیا، البتہ پیشگی طے شدہ پروگرام کے تحت حلالہ کی غرض سے نکاح کرنا اور کرانا شرعاً مذموم وناپسندیدہ ہے اور اس میں گناہ ہوتا ہے۔ (۲) اگر دوسرے شوہر نے باقاعدہ صحبت کرکے طلاق دی ہے تو یہ حلالہ درست ہوگیا اور عدت کے بعد عورت اپنے پہلے شوہر (عمر) کے لیے حلال ہوگئی، اور لڑکی کے والد جس بنیاد پر حلالہ صحیح نہ ہونے کی بات کہہ رہے ہیں ان سے دریافت کرکے سوال کریں اور اگر اس کی وجہ ان کے نزدیک یہ ہے کہ نکاح میں ان سے اجازت نہیں لی گئی تو شرعاً یہ وجہ صحیح نہیں؛ کیونکہ لڑکی عاقلہ بالغہ ہے جس کا نکاح باپ کی اجازت کے بغیر بھی ہوسکتا ہے، اگرچہ بہتر نہیں۔ (۳) حلالہ کے سلسلہ میں لڑکی کے والد سے صراحتاً مشورہ کرنا چاہیے تھا، نیز انھیں نکاح کی اطلاع بھی دینی چاہیے تھی؛ اس لیے بظاہر ان کی ناراضگی صحیح معلوم ہوتی ہے؛ لیکن جو ہونا تھا ہوگیا؛ اس لیے اب ناراضگی کو طول دینا اور لڑکی سے بات وغیرہ نہ کرنا اور اسے گھر بٹھاکر اس کی کہیں شادی بھی نہ کرنا ٹھیک معلوم نہیں ہوتا، انھیں اپنی ناراضگی ختم کرکے لڑکی کا اس کے پہلے شوہر سے یا کسی اور مناسب جگہ نکاح کردینا چاہیے۔ (۴) عمر اپنے بچہ کا خرچہ سسر کے حوالہ نہ کرکے لڑکی کے بھائی یا چچا وغیرہ کے ذریعہ لڑکی تک پہنچادیا کرے پھر لڑکی اس کے ذریعہ بچہ کی ضروریات پوری کرلے اور اگر لڑکی بھی انکار کردے تو شرعاً عمر پر کوئی گناہ نہ ہوگا۔ (۵) عمر براہِ راست بچہ کی ماں سے کوئی رابطہ نہ کرے؛ کیوں کہ اس میں فتنہ کا اندیشہ ہے؛ بلکہ یا تو اس کے بھائی یا چچا وغیرہ کے ذریعہ رابطہ کرے یا اپنی ماں یا بہن، بچہ کی ماں سے بات کرائے۔ (۶) بچہ کی ماں کو چاند کے حساب سے بچہ کی عمر سات سال مکمل ہونے تک پرورش کا حق ہے بشرطیکہ وہ اس دوران کسی ایسے شخص سے نکاح نہ کرے جو بچہ کے حق میں نسبی محرم نہ ہو ورنہ یہ حق پرورش نانی کی طرف منتقل ہوجائے گا، اور اگر نانی نہ ہویا وہ اس کے لیے تیار نہ ہو تو بچہ کی دادی کو حق پرورش حاصل ہوگا اور جب بچہ مکمل سات سال کا ہوجائے گا تو ماں وغیرہ کا حق پرورش ختم ہوکر باپ کو یہ حق حاصل ہوگا کہ بیٹے کو اس کی ماں وغیرہ سے لے کر اپنے پاس رکھے، اس موقعہ پر ماں کا یا بچہ کے نانا کا بچہ کے باپ سے کسی رقم کا مطالبہ کرنا جائز نہ ہوگا، البتہ حق پرورش مکمل ہونے سے پہلے ماں جب چاہے آئندہ کا ماہانہ خرچہ طلب کرسکتی ہے اور جو ایام گذرگئے ان کے خرچہ کے مطالبہ کا حق اسے پرورش کے دوران بھی نہ ہوگا ، البتہ اگر باپ دیدے تو یہ اس کی جانب سے تبرع ہوگا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند