• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 601598

    عنوان:

    حالت حیض میں دی جانے والی طلاق كا حكم

    سوال:

    میں شاداب عباسی ولد مقبول ارحمان عباسی، ابیٹ آباد، پاکستان نے اپنی بیوی ناصرہ شاداب عباسی ولد خورشید اختر عباسی سکنہ مری پاکستان کو آج سے تقریبان 6 سال پہلے پہلی طلاق دی،جب طلاق دی اس وقت میری بیوی کو بیٹا پیدا ہوئے صرف 3 دن ہوئے تھے،اور وہ حالت حیض میں تھی، سوال یہ ہے کہ کیا اس حالت میں دی جانے والی طلاق کی شریعت میں کیا حیثیت ہے؟ پھر ہماری زندگی گزرنے لگی اور آج سے 4 سال پہلے پھر جھگڑا ہوا اور طلاق دے دی اور رجوع کر لیا، اب پھر ہمارے درمیان جھگڑا ہوا اور میں نے بیوی کو طلاق دے دی اور اب ہم جدا جدا رہ رئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا میری پہلی طلاق جب بیوی حالت حیض میں تھی تو وہ ہو گئی اور اس کے بعد دو بار جو معاملہ ہوا تو اس کے بعد کیا میں نے اپنے تینوں حق استعمال کر لیے یا پہلی بار جب حیض کی حالت میں طلاق دی تو وہ حق استعمال نا ہو سکا، شریعت کی روشنی میں آپ سے اس مسلے کا حل چاہتے ہیں۔

    نوٹ: ہم دونوں (لڑکی/لڑکا)دوبارہ سے تجدید نکاح کرنا چاہتے ہیں،شرعی کیا حکم ہے ہمارے لیے؟شکریہ

    جواب نمبر: 601598

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:385-293/L=5/1442

     طلاق حالتِ حیض ونفاس میں بھی واقع ہوجاتی ہے ؛اس لیے اگر آپ نے اپنی بیوی کو تین متفرق اوقات میں تین مرتبہ طلاق دیدی ہے تو تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں اور بیوی مغلظہ بائنہ ہوکر آپ پر حرام ہو گئی اب بغیر حلالہ شرعی کے دوبارہ آپ دونوں کا نکاح کرنا جائز نہیں ، اور حلالہ کی صورت یہ ہوگی کہ عورت عدت گذارنے کے بعد کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے اور وہ شخص اس سے صحبت کے بعد اس کو بخوشی طلاق دیدے یا اس کی وفات ہوجائے ، پھرعورت عدت گذارے ،عدت گزارنے کے بعد اگروہ دوبارہ اپنے پہلے شوہر (آپ)سے نکاح کرنا چاہے تو اس کے لیے اپنے پہلے شوہر سے نکاح کرنا جائز ہوگا ۔

    " وإذا طلق الرجل امرأتہ فی حالة الحیض وقع الطلاق " لأن النہی عنہ لمعنی فی غیرہ وہو ما ذکرناہ فلا ینعدم مشروعیتہ.[الہدایة فی شرح بدایة المبتدی 2/ 327)وقال فی بدائع الصنائع: وأما الطلقات الثلاث فحکمہا الأصلی ہو زوال الملک وزوال حل المحلیة أیضاً حتی لا یجوز لہ نکاحہا قبل التزوج بزوج آخر لقولہ عز وجل:﴿ فإن طلقہا فل ا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاً غیرہ ﴾ وسواء طلقہا ثلاثا متفرقاً أو جملة واحدة الخ.(بدائع الصنائع ،کتاب الطلاق۳: ۲۹۵ط مکتبة زکریا دیوبند) وإن کان الطلاق ثلاثا فی الحرة وثنتین فی الأمة لم تحل لہ حتی تنکح زوجا غیرہ نکاحا صحیحا ویدخل بہا ثم یطلقہا أو یموت عنہا کذا فی الہدایة ولا فرق فی ذلک بین کون المطلقة مدخولا بہا أو غیر مدخول بہا کذا فی فتح القدیر ․ (الفتاوی الہندیة 1/ 473)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند