• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 600229

    عنوان:

    طلاق كو نكاح پر معلق كرنا؟

    سوال:

    اگر کوئی شخص نکاح سے قبل یہ کہے کہ جو میری بیوی ہوگی میں نے اسے تین طلاق دی، کیا ایسی صورت میں طلاق واقع ہوتی ہے ؟ اگر واقع ہوتی ہے تو مذکورہ صورت میں نکاح باقی رکھنے کی کیا صورت ہوگی؟

    جواب نمبر: 600229

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:88-26T/N=2/1442

     جی ہاں! یہ شخص جب کسی عورت / لڑکی سے نکاح کرے گا تو نکاح ہوتے ہی اُس عورت / لڑکی پر تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی اور وہ اِس پر حرمت غلیظہ کے ساتھ حرام ہوجائے گی اور آیندہ حلالہ شرعی سے پہلے کسی صورت میں دونوں کا باہم دوبارہ نکاح جائز نہ ہوگا؛ البتہ اگر یہ شخص از خود اُس مخطوبہ سے نکاح ( کا ایجاب یا قبول)نہ کرے اور نہ ہی کسی کو اُس سے اپنے نکاح (کے ایجاب یا قبول)کا وکیل بنائے ؛ بلکہ کوئی شخص فضولی بن کر اِس کا نکاح اُس (مخطوبہ)عورت / لڑکی سے کردے ،پھر جب اس شخص کومعلوم ہو تو یہ زبان سے نکاح کی اجازت نہ دے ؛بلکہ خاموش رہے اور عورت / لڑکی کے پاس پورا مہر یا اس کا کچھ حصہ بھیج دے اور وہ بھیجا ہوا مہر عورت / لڑکی کے پاس پہنچ جائے یا یہ شخص کسی کاغذ پر نکاح کی اجازت لکھ دے تو یہ نکاح شرعاً صحیح ودرست ہوجائے گا اور منکوحہ پر کوئی طلاق بھی واقع نہ ہوگی۔

    اور ایک دوسری صورت یہ بھی ہے کہ یہ شخص اولاً کسی ایسی عورت / لڑکی سے دو تین ہزار روپے مہر پر نکاح کرے، جسے نکاح میں رکھنے کا ارادہ نہ ہو اور نکاح کے بعد اسے آدھا مہر ادا کردے ، پس جب یہ اُس سے نکاح کرے گا تو حسب شرط اس پر تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی اور قسم ختم ہوجائے گی۔ اس کے بعد کسی ایسی عورت/ لڑکی سے نکاح کرلے، جسے نکاح میں رکھنے کا ارادہ ہو تو اس صورت میں اس دوسری عورت/ لڑکی پر کوئی طلاق واقع نہ ہوگی؛ کیوں کہ پہلے نکاح سے قسم ختم ہوگئی۔

    ولو قال: کل امرأة أتزوجھا فھي طالق فتزوج نسوة طلقن، ولو تزوج امرأة واحدة مراراً لم تطلق إلا مرة واحدة کذا فی المحیط، ولو نوی بعض النساء صحت نیتہ دیانة لا قضاء الخ کذا فی البحر(الفتاوی الھندیة، کتاب الطلاق، الباب الرابع فی الطلاق بالشرط ونحوہ، الفصل الأول فی ألفاظ الشرط،۱: ۴۱۵، ط:المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)۔

    قال اللّٰہ تعالی:﴿فإن طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاغیرہ ﴾الآیة (سورة البقرة، رقم الآیة، ۲۳۰)۔

    وجاء عند أبي داود في سننہ في روایة عیاض بن عبد اللہ الفھري وغیرہ عن ابن شھاب عن سھل بن سعد قال:فطلقھا ثلاث تطلیقات عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فأنفذہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،وکان ما صنع عند النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم سنة (سنن أبي داود،کتاب الطلاق،باب فی اللعان ص۳۰۶،ط:المکتبة الأشرفیة، دیوبند)۔

    وصححہ الشوکاني کما فی نیل الأوطار لہ (کتاب اللعان،باب لا یجتمع المتلاعنان أبداً ۱۲:۵۱۴ط دار ابن الجوزي للنشر والتوزیع)۔

    وأما الطلقات الثلاث فحکمھا الأصلي ھو زوال الملک وزوال حل المحلیة أیضاً حتی لا یجوز لہ نکاحھا قبل التزوج بزوج آخر لقولہ عز وجل ﴿فإن طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاً غیرہ﴾ وسواء طلقھا ثلاثا متفرقاً أو جملة واحدة الخ (بدائع الصنائع ۳: ۲۹۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

    وإن کان الطلاق ثلاثاً فی الحرة…لم تحل لہ حتی تنکح زوجا غیرہ نکاحا صحیحاویدخل بھا ثم یطلقھا أو یموت عنھا کذا فی الھدایة (الفتاوی الھندیة، کتاب الطلاق،باب فی الرجعة، فصل في ما تحل بہ المطلقة وما یتصل بہ، ۱: ۴۷۳، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)۔

    (حلف لا یتزوج فزوجہ فضولي فأجاز بالقول حنث، وبالفعل)، ومنہ الکتابة خلافاً لابن سماعة (لا) یحنث (الدر المختار مع رد المحتار، آخر کتاب الأیمان، ۵: ۶۷۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۱۱: ۶۶۴، ۶۶۵، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔

    قولہ:”وبالفعل“کبعث المھر أو بعضہ بشرط أن یصل إلیھا (رد المحتار)۔ قولہ: ”ومنہ الکتابة“: أي: من الفعل ما لو أجاز بالکتابة لما في الجامع: حلف لا یکلم فلاناً أو لا یقول لہ شیئاً فکتب إلیہ کتاباً لا یحنث، وذکر ابن سماعة أنی یحنث، نھر (المصدر السابق)۔

    ألفاظ الشرط: إن ………ومتی ومتی ما، ففي ہٰذہ الألفاظ إذا وجد الشرط انحلت الیمین وانتہت إلخ (الفتاوی الھندیة، کتاب الطلاق، الباب الرابع فی الطلاق بالشرط ونحوہ، الفصل الأول فی ألفاظ الشرط، ۱: ۴۱۵)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند