• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 59470

    عنوان: طلاق کے متعلق ضروری معلومات یا فتویٰ چاہیے

    سوال: میرا آپ سے ایک سوال ہے وہ یہ کہ ایک آدمی جس کے سر پر بچپن سے کسی بڑے کا سایا یا ہاتھ نہیں ہے کچھ سمجھانے یا بتانے کے لئے ، وہ آدمی خدا کو حاضر ناظر جان کے قرآن پہ ہاتھ رکھ کے حلفیہ یہ بات کہتا ہے کہ اسے بچپن سے یہ پتا ہے کے طلاق کا لفظ جب تک ۳ بار ایک ساتھ نہیں کہا جاتا جب تک طلاق نہیں ہوتی اسے یہ نہیں پتا تھا کہ اگر ایک بار طلاق کا لفظ بیوی کو بول دیا جائے تو ایک بار طلاق واقعی ہوجاتی ہے ۔ اس آدمی کی شادی ہوتی ہے اور اسکے بچے بھی ہیں وہ اپنی بیوی کے ساتھ ۰۱ سال گزرتا ہے اور اچانک ان دونو شوہر اور بیوی کی لڑائی ہوتی ہے اور شوہر اپنی بیوی کو ۲ بار کہتا ہے کے میں تمہیں طلاق دیتا ہوں اور خاموش ہوجاتا ہے کیوں کہ اسے یہ پتا ہے کے اگر ۳ بار طلاق کے لفظ ایک ساتھ بول دے تو طلاق ہوجاے گی وہ یہ سمجھتا اور جانتا ہے کہ ۲ بار بولنے سے کچھ نہیں ہوتا لیکن بعد میں اسکی بیوی کہتی ہے کہ ایک سال پہلے ایک بار تم نے مجھے یہ طلاق کا لفظ کہا تھا اسلئے ہماری طلاق واقعی ہوگئی۔ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ ایسے حالات میں کیا طلاق واقعی ہوگئی؟

    جواب نمبر: 59470

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 514-479/Sn=8/1436-U معاملات اور معاشرت سے متعلق اتنا علم رکھنا ہرمسلمان پر ضروری ہے جس کی روزہ مرّہ زندگی میں ضرورت پڑتی ہے خصوصاً ہند وپاک جیسے ممالک میں جہاں علمِ دین سیکھنے کے بے شمار ذرائع موجود ہیں، اب اگر کسی شخص کو ”طلاق“ سے متعلق ایک عام مسئلے کا علم نہ ہو تو یہ دین کے تئیں انتہائی بے اعتنائی اور جہالت کی بات ہے، شرعاً اس کا اعتبار نہیں ہے؛ لہٰذا صورت مسئولہ میں دو طلاق تو بالیقین واقع ہوگئیں، رہی پہلے دی گئی ایک طلاق جیسا کہ بیوی کہتی ہے تو اگر شوہر کو بیوی کی بات تسلیم ہے یا بیوی کے پاس شرعی گواہ موجود ہیں تو پہلی والی ایک ملاکر کل تین طلاق واقع ہوگئیں اور بیوی اس پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی۔ اگر شوہر بیوی کی بات کا منکر ہے تو یہ مسئلہ محکمہٴ شرعی میں پیش کریں، وہاں سے جو فیصلہ ہو اس کے مطابق عمل درآمد کریں، انکار یا گواہ نہ ہونے کی صورت میں یہ مسئلہ دارالافتاء سے حل نہیں ہوسکتا۔ درمختار میں ہے: واعلم أن تعلّم العلم یکون فرض عین وہو بقدر ما یحتاج لدینہ وفرض کفایة وہو ما زاد علیہ لنفع غیرہ ومندوبًا وہو التبحّر في الفقہ الخ (۱/۱۲۵، زکریا) وفي رد المحتار (ص: ۱۲۶) لا شک في فرضیة علم الفرائض الخمس․․․ وعلم البیع والشراء والنکاح والطلاق لمن أراد الدخول في ہذہ الأشیاء․․․ وأمّا فرض الکفایة من العلم فہو کل علم لا یستغني عنہ في قوام أمور الدنیا کالطب والحساب الخ


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند