معاشرت >> طلاق و خلع
سوال نمبر: 59470
جواب نمبر: 59470
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 514-479/Sn=8/1436-U معاملات اور معاشرت سے متعلق اتنا علم رکھنا ہرمسلمان پر ضروری ہے جس کی روزہ مرّہ زندگی میں ضرورت پڑتی ہے خصوصاً ہند وپاک جیسے ممالک میں جہاں علمِ دین سیکھنے کے بے شمار ذرائع موجود ہیں، اب اگر کسی شخص کو ”طلاق“ سے متعلق ایک عام مسئلے کا علم نہ ہو تو یہ دین کے تئیں انتہائی بے اعتنائی اور جہالت کی بات ہے، شرعاً اس کا اعتبار نہیں ہے؛ لہٰذا صورت مسئولہ میں دو طلاق تو بالیقین واقع ہوگئیں، رہی پہلے دی گئی ایک طلاق جیسا کہ بیوی کہتی ہے تو اگر شوہر کو بیوی کی بات تسلیم ہے یا بیوی کے پاس شرعی گواہ موجود ہیں تو پہلی والی ایک ملاکر کل تین طلاق واقع ہوگئیں اور بیوی اس پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی۔ اگر شوہر بیوی کی بات کا منکر ہے تو یہ مسئلہ محکمہٴ شرعی میں پیش کریں، وہاں سے جو فیصلہ ہو اس کے مطابق عمل درآمد کریں، انکار یا گواہ نہ ہونے کی صورت میں یہ مسئلہ دارالافتاء سے حل نہیں ہوسکتا۔ درمختار میں ہے: واعلم أن تعلّم العلم یکون فرض عین وہو بقدر ما یحتاج لدینہ وفرض کفایة وہو ما زاد علیہ لنفع غیرہ ومندوبًا وہو التبحّر في الفقہ الخ (۱/۱۲۵، زکریا) وفي رد المحتار (ص: ۱۲۶) لا شک في فرضیة علم الفرائض الخمس․․․ وعلم البیع والشراء والنکاح والطلاق لمن أراد الدخول في ہذہ الأشیاء․․․ وأمّا فرض الکفایة من العلم فہو کل علم لا یستغني عنہ في قوام أمور الدنیا کالطب والحساب الخ
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند