معاشرت >> طلاق و خلع
سوال نمبر: 5899
میں پچاس سال کی شادی شدہ عورت ہوں اسلام پر مکمل یقین رکھتی ہوں۔ میں نے ایک شخص سے 1982میں شادی کی جو کہ دبئی میں نوکری کرتا ہے۔ وہ اٹھارہ مہینوں کے بعد پینتالیس دن کی چھٹی پر آئے اور اس قیام کے دوران میرے ساتھ بہت لاپرواہ رہے۔ وہ وہاں سے میری اور میرے معصوم بچوں کی ضروریات کے لیے پیسہ بھیجنے کے لیے فکرمند بھی نہیں ہیں۔ ایک دن 1987کو دبئی سے ایک خط موصول ہوا جس میں لکھا تھا: کیوں کہ تم اسلام پر نہیں چلتی ہو اس لیے میں تم کو طلاق دے رہا ہوں۔ اور اس نے یہ جملہ تین مرتبہ دہرایا۔ میں اور میرے والدین نے اس کی طلاق کوقبول کرلیا ہے۔۔۔؟
میں پچاس سال کی شادی شدہ عورت ہوں اسلام پر مکمل یقین رکھتی ہوں۔ میں نے ایک شخص سے 1982میں شادی کی جو کہ دبئی میں نوکری کرتا ہے۔ وہ اٹھارہ مہینوں کے بعد پینتالیس دن کی چھٹی پر آئے اور اس قیام کے دوران میرے ساتھ بہت لاپرواہ رہے۔ وہ وہاں سے میری اور میرے معصوم بچوں کی ضروریات کے لیے پیسہ بھیجنے کے لیے فکرمند بھی نہیں ہیں۔ ایک دن 1987کو دبئی سے ایک خط موصول ہوا جس میں لکھا تھا: کیوں کہ تم اسلام پر نہیں چلتی ہو اس لیے میں تم کو طلاق دے رہا ہوں۔ اور اس نے یہ جملہ تین مرتبہ دہرایا۔ میں اور میرے والدین نے اس کی طلاق کوقبول کرلیا ہے۔میں نے اپنی روزی کا انتظام کرنے کے لیے گھر پر ٹیوشن پڑھانا شروع کیا۔طلاق کے پانچ سال کے بعد 1992میں اس نے اعتراف کیا کہ اس نے بہت غلط کیا ہے اور مجھے اپنے گھر واپس لے جانا چاہا۔ اس نے مجھے اورمیرے والدین کو باور کرانے کی کوشش کی۔ میرے والدین نے اس بابت اسلامی علماء سے رابطہ کیا۔ انھوں نے مشورہ دیا ہے کہ اس صورت میں نکاح ضروری ہے کیوں کہ میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی ہے اور مجھے اورمیرے لڑکے کو بغیر خرچ دئے ہوئیمجھ سے بہت لمبے عرصہ تک دور رہا ہے۔نیا نکاح منعقد ہوا اورمیں اپنے شوہر کے گھر گئی۔ وہ دبئی سے واپٍس آیا اورضرورت مند مردوں اورعورتوں کو تعویذ دینا شروع کیا اورکبھی کبھی ضرورت مند لوگوں کے گھر تعویذ دینے اورعملیات کرنے جانے لگا۔اس نے دوبارہ جھگڑاکرنا، مارناشروع کیا اور میری زندگی کی ضروریات کو پوری کرنے کے لیے پیسہ دینا بند کردیا۔ دوسال کے بعد وہ دوبارہ میرے پڑوسی کی بیوی کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ ?اس نے مجھے طلاق دے دی ہے اور وہ اب میری بیوی نہیں ہے?۔اب میری پریشانی یہ ہے: میرے والدین زندہ نہیں ہیں۔ میرے تمام بھائی شادی شدہ ہیں اوراپنے آپ میں خوش ہیں۔ میں اپنے والدین کی اکلوتی لڑکی ہوں۔ میرے اکلوتے لڑکے نے ابھی شادی کی ہے وہ اوراس کی بیوی اپنے پیشہ کے سلسلہ میں دور ہیں۔ میں اکیلی ہوں اورکبھی میں اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کرتی ہوں، کیوں کہ میری دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ گزشتہ دس سال سے زیادہ عرصہ سے میں اپنے شوہر کے رابطہ میں نہیں ہوں اوراپنی ضروریات کے لیے ایک پیسہ بھی نہیں پارہی ہوں۔ مجھے بتائیں کہ:کیا اس کا مکرر لفظ طلاق فائنل طلاق تصور کیا جائے گا؟ کیا میں اب بھی اس کے نکاح میں ہوں یا نہیں؟ ان وجوہات کی بناء پر جیسے سماجی تحفظ، حج میں جانے کے لیے محرم کی ضرورت، اورمیں اس سے بھی خوف زدہ ہوں کہ کہیں میں کسی گناہ کا ارتکاب نہ کردوں جو کہ اسلامی تعلیم کے خلاف ہو، کیا میں کسی دوسرے شخص سے نکاح کرسکتی ہوں؟
جواب نمبر: 5899
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 656=618/ ل
اگر آپ کے شوہر کے پہلے خط جو کہ اس نے 1987 کو روانہ کیا تھا اقرار تھا اور اس میں تین مرتبہ ?میں تم کو طلاق دے رہا ہوں? لکھا تھا تو تینوں طلاقیں آپ پر واقع ہوگئی تھیں، اور آپ اپنے شوہر پر حرام ہوگئی تھیں اس کے بعد دوبارہ جو نکاح بغیر حلالہ کے ہوا وہ غلط ہوا، اور جتنی بار ہمبستری ہوئی وہ زنا ہوئے، اس لیے آپ دونوں پر توبہ واستغفار ضروری ہے۔ اور اب جب کہ آپ پر طلاق واقع ہوچکی ہے، آپ کسی دوسرے شخص سے نکاح کرسکتی ہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند