معاشرت >> طلاق و خلع
سوال نمبر: 58914
جواب نمبر: 58914
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 416-381/Sn=7/1436-U
شوہر کا بلاوجہ طلاق دینا اور بیوی کا بلاوجہ طلاق کا مطالبہ کرنا دونوں شرعاً سخت ناپسندیدہ ہیں، ابوداوٴد کی روایت میں ہے: أبغض الحلال عند اللہ تعالی الطلاق یعنی طلاق اللہ تعالی کے نزدیک سخت ناپسندیدہ چیز ہے، ابوداوٴد ہی کی ایک دوسری روایت میں ہے: أیُّما امرأة سألت زَوجہا طلاقًا في غیر بأس فحرام علیہا رائحة الجنة یعنی جو عورت سخت ضرورت کے بغیر اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے اس پر جنت کی خوشبو تک حرام ہے۔ (ابوداوٴد مع حاشیہ السندی: رقم: ۲۰۵۵)؛ اس لیے صورتِ مسئولہ میں آپ اپنی بیوی کو سمجھائیں اور کچھ معاملہ فہم لوگوں کو بیچ میں ڈال کر نزاع کو ختم کرنے کی کوشش کریں، حتی الامکان طلاق دینے سے اجتناب کریں، بیوی کی طرف سے رقم (ڈھائی لاکھ) کا مطالبہ کرنا ناجائز نہیں ہے، بہ صورتِ طلاق وہ صرف نفقہٴ عدت کی حقدار ہے بہ شرطے کہ وہ آپ کے گھرعدت گزارے، ہاں اگر آپ نے مہر ادا نہیں کیا اور نہ ہی معافی مہر کی شرط پر طلاق دی گئی تو وہ مہر کی بھی حق دار ہے۔ (انظر: امداد الفتاوی: ۲/۲۵۴، سوال: ۶۲۴، ط: زکریا، دیوبند) بہ صورتِ طلاق بیٹی نو سال تک اور بیٹا سات سال تک ماں کی پروش میں رہیں گے، اس کے بعد حق پرورش باپ کو ملے گا، اگر مطلقہ بیوی کا نکاح بچے کے نامحرم سے ہوجائے تو حق پرورش نانی کی طرف منتقل ہوجائے گا۔ وتثبت للأم النسبیة ․․․ بعد الفرقة إلا أن تکون مرتدّة․․․ أو متزوّجة بغیر محرم الصغیر․․․ ثم بعد الأم ․․․ أم الأم․․․ والحاضنة أمًّا أو غیرہا أحقّ بہ بالغلام حتی یستغني عن النساء وقدر بسبع وبہ یفتی؛ لأنہ الغالب․․․ والأمّ والجدّة․․․ أحق بہا بالصغیرة حتّی تحیض أي تبلغ في ظاہر الروایة․․․ وغیرہما أحق بہا حتی تشتہي․․․ وعن محمّد أن الحکم في الأمّ والجدة کذلک وبہ یفتی لکثرة الفساد، وقال الشامي تحتہ: قال في البحر بعد نقل تصحیحہ: والحاص أن الفتوی علی خلاف ظاہر الروایة․ (درمختار مع الشامي: ۵/۲۶۸، زکریا)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند