• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 58829

    عنوان: وقوعِ طلاق کے لیے بیوی کے روبرو طلاق دینا ضروری نہیں

    سوال: میں فیروز ہوں، میرے دوست کی شادی کے معاملے کے متعلق آپ کا فتوی مطلوب ہے ۔ میری ایک خاتون دوست کے شوہر نے 2009 میں ایک مرتبہ طلاق دی تھی، پھر 2010میں ایک طلاق دی اور ایک مہینہ کے بعد جامعہ نظامیہ ، حیدر آباد کے مشورہ پر اس کے شوہر نے اس سے نکاح کرلیا اوردونوں ساتھ رہ رہے ہیں۔ابھی چار مہینے قبل اس کے شوہر نے اپنی ساس کو بلایا اور کہا کہ میں نے آپ کی بیٹی کو تیسری مرتبہ طلاق دیدی ہے، شوہر نے ڈائریکٹ اپنی بیوی کو طلاق نہیں کہا بلکہ اپنے جاننے والے کو کہا۔ میں یہ جاننا چاہتاہوں کہ کیا اس کی اجازت ہے ؟یا طلاق ہوگئی ہے؟ یا وہ دونوں ایک ساتھ رہ سکتے ہیں؟۱۷ سال پہلے ان کی شادی ہوئی ہے، ایک بیٹی پندرہ سال کی اور ایک بیٹا دس سال کا ہے، ابھی دونوں ایک ساتھ ہونا چاہتے ہیں اور ساتھ زندگی گذارنا چاہتے ہیں۔ براہ کرم، جواب دیں۔

    جواب نمبر: 58829

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 393-358/Sn=7/1436-U

    وقوعِ طلاق کے لیے بیوی کے روبرو طلاق دینا ضروری نہیں ہے، اگر شوہر تنہائی میں یا بیوی کے علاوہ دیگر لوگوں کے سامنے طلاق دے تب بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے؛ اس لیے صورت مسئولہ میں جب مذکور فی السوال خاتون کو ان کے شوہر نے تین طلاق تین مختلف اوقات میں دیدی ہے تو تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں اور وہ شوہر کے نکاح سے بالکلیہ خارج ہوگئیں، اب ان کے لیے شوہر کے ساتھ ازدواجی زندگی گزارنا شرعاً جائز نہیں ہے، عدت گزرنے کے بعد وہ اپنے نفس کی مختار ہیں وہ طلاق دینے والے شوہر کے علاوہ جہاں چاہیں دوسری جگہ شادی کرسکتی ہیں، اگر دوسری جگہ شادی ہونے کے بعد دوسرا شوہر ہمبستری کرلے پھر وہ کسی وجہ سے طلاق دیدے یا بہ قضائے الٰہی وفات پاجائے تو عدت گزرنے کے بعد اگر چاہیں تو یہ خاتون اپنے سابق شوہر سے باہم رضامندی سے نکاح کرسکتی ہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند