• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 58793

    عنوان: جس طرح آپ نے فتوی نمبر 131 rtb 10/ 1430 = 1607 کے جواب میں فرمایا ہے کہ طلاق میں نطق زبان سے ضروری ہے اور کم از کم اتنی زور سے کہے کہ وہ خود سن سکے اگر اس نے اس طرح کہا کہ اس نے خود نہیں سنا یعنی الفاظ طلاق زبان پر جاری ہوئے ، کوئی ہلکی آواز بھی سنائی نہیں دی تو اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ جس طرح دل میں طلاق دینے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوتی ، کیا یہ حکم شرطیہ طلاق کے باے میں بھی ہے؟ جس طرح اگر کسی شخص کے بان سے یہ نکلا کہ یہ کام ہوا تو طلاق ، لیکن یہ الفاظ اس قدر آہستہ نکلے کہ خود ہی نہ سن سکا ہو؟ مہربانی فرما کر جواب دے کر رہنمائی فرمائیں۔ جزا ک اللہ

    سوال: جس طرح آپ نے فتوی نمبر 131 rtb 10/ 1430 = 1607 کے جواب میں فرمایا ہے کہ طلاق میں نطق زبان سے ضروری ہے اور کم از کم اتنی زور سے کہے کہ وہ خود سن سکے اگر اس نے اس طرح کہا کہ اس نے خود نہیں سنا یعنی الفاظ طلاق زبان پر جاری ہوئے ، کوئی ہلکی آواز بھی سنائی نہیں دی تو اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ جس طرح دل میں طلاق دینے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوتی ، کیا یہ حکم شرطیہ طلاق کے باے میں بھی ہے؟ جس طرح اگر کسی شخص کے بان سے یہ نکلا کہ یہ کام ہوا تو طلاق ، لیکن یہ الفاظ اس قدر آہستہ نکلے کہ خود ہی نہ سن سکا ہو؟ مہربانی فرما کر جواب دے کر رہنمائی فرمائیں۔ جزا ک اللہ

    جواب نمبر: 58793

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 537-533/B=6/1436-U جی ہاں یہ حکم شرعی طلاق کے بارے میں بھی ہے۔ یعنی اگر کسی شخص کی زبان سے یہ نکلا کہ ”یہ کام ہوا تو طلاق“ اور اس قدر آہستہ کہا ہے کہ وہ خود بھی نہ سن سکا تو اس سے کوئی طلاق کام ہونے کے بعد واقع نہ ہوگی، یہ مسئلہ علامہ طحطاوی نے شرح مراقی الفلاح میں تحریر فرمایا ہے۔ اور باب افتتاح الصلاة کے شروع میں بیان کیا ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند