• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 58615

    عنوان: كیا طلاق مشروط ختم كی جاسكتی ہے؟

    سوال: (۱) زید نے اپنی بیوی سے کہا ” اور آج میں کہہ رہا ہوں کہ اگر آئندہ تمہیں یہ بات اشارے میں بھی کہی کہ تم اس شادی سے خوش نہیں ہو ، تمہیں طلاق “یہ بات زید نے غصے میں اپنی بیوی کو ڈرانے کے لیے کہی تھی اور فوراً ہی اپنے الفاظ واپس لے لیے تھے، لیکن زید کی بیوی نے کچھ دنوں بعد یہ بولا کہ وہ یہ شادی کرکے پچھتا رہی ہے۔ (۱) کیا شرط فوراً واپس لینے سے ختم ہوگئی؟ (۲) کیا طلاق ہوئی ؟(۳) اگر طلاق ہوئی تو طلاق رجعی ہوئی یا نہیں؟(۴) اور کیا ہر بار بیوی کے اس بات کے بولنے سے ایک طلاق اور ہوجائے گی؟ زید اور اس کی بیوی ایک دوسرے بہت خوش ہیں اور دونوں ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ جزاک اللہ

    جواب نمبر: 58615

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 280-280/Sd=6/1436-U (۱) شرطیہ جملہ بولنے کے بعد واپس لینے سے شرط ختم نہیں ہوتی ہے۔ (۲) زید کے مذکورہ شرطیہ جملہ بولنے کے بعد اگر اس کی بیوی نے یہ جملہ کہا ہے کہ وہ شادی کرکے پچھتارہی ہے تو اس سے اس کی بیوی پر ایک طلاق واقع ہوگئی؛ اس لیے کہ پچھتانے کا مطلب یہی ہے کہ وہ شادی سے خوش نہیں ہے، گویا اس نے اشارةً شادی سے خوش نہ رہنے کی بات کہی ہے، لہٰذا شرط کے مطابق طلاق واقع ہوجائے گی۔ (۳) اگر بیوی کے ساتھ صحبت یا خلوتِ صحیحہ ہوچکی تھی، تو مذکورہ صورت ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی ورنہ طلاق بائن۔ (۴) جی نہیں، بیوی کے ہربار مذکورہ جملہ بولنے سے طلاق واقع نہیں ہوگی، پہلی بار سے ہی یمین ختم ہوگئی۔ قال الکاساني: ا لیمین لا یجب علی الإنسان بالالتزام حتی یبطل بالاختیار، فبقیت لایمین علی حالہا․ (بدائع: ۳/۵۱) والضابطة: التعلیق في حکم الیمین، فلا خیارَ لأحد أن یبطلہ حتے للزوج أیضًا․ (فقہی ضوابط: ۱/۱۲۳) وقال المرغیناني: وإذا أضافہ إلی شيء وقع عقیب الشرط مثل أن یقول لامرأتہ: إن دخلت الدار فأنت طالق، وہذا بالاتفاق․ (ہدایہ: ۲/۳۸۵) والضابطة: کل طلاق لغیر المدخول بہا یکون بائنًا سواء کان بالألفاظ الصریحة أو بالکنایة․ وقال المرغیناني: ففي ہذہ الألفاظ إذا وجد الشرط، انحلت وانتہت الیمین؛ لأنہا غیر مقتضیة للعموم والتکرار لغةً، فبوجود الفعل مرةً یتم الشرط ولا بقاء للیمین بدونہ (ہدایة: ۲/۳۸۶)․


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند