• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 58284

    عنوان: نکاح سے پہلے طلاق کے الفاظ سے طلاق واقع ہو جائے گی یا نہیں؟

    سوال: میں نے ایک گناہ سے بچنے کیلئے اپنے اوپر ایک شرط ڈال دی تھی کہ اگر فلاں کام کیا تو مستقبل میں ہونے والی بیوی کو طلاق. اس کے بعد وہ گناہ مجھ سے سرزد ہو گیا. اب پوچھنا یہ ہے کہ نکاح سے پہلے ہی طلاق کے الفاظ کہنے سے مستقبل کے نکاح پر کوئی فرق پڑے گا جبکہ اس وقت رشتہ بھی طے نہیں ہوا تھا.

    جواب نمبر: 58284

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 455-450/N=6/1436-U احناف کے نزدیک طلاق کی تعلیق درست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ عورت شوہر کے نکاح میں ہو یا تعلیق والے جملہ میں عورت کی جانب نکاح کی نسبت کی گئی ہو، اور صورت مسئولہ میں عورت کی جانب صراحتاً نہ سہی، معنی نکاح کی نسبت ضرور آئی ہے؛ کیوں کہ آپ نے کہا ہے ”مستقبل میں ہونے والی بیوی“ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ عورت جس سے میں نکاح کروں گا اور وہ میری بیوی بنے گی“۔ اس لیے صورت مسئولہ میں نکاح کرتے ہی آپ کی ہونے والی بیوی پر ایک طلاق بائنہ واقع ہوجائے گی، البتہ قسم بھی پوری ہوجائے گی، اس کے بعد اسی عورت سے دوبارہ یا کسی اور عورت سے نکاح کرنے پر ہونے والی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہ ہوگی، البتہ اگر پہلی عورت ہی سے نکاح کیا تو آپ کو صرف دو طلاق کا حق ہوگا، مکمل تین کا نہیں؛ کیوں کہ آپ کی جانب سے اس پر ایک طلاق واقع ہوچکی ہے، ثم اعلم أن المراد ہنا بالإضافة معناہا اللغوي الشاملة للتعلیق المحض وللإضافة الاصطلاحیة الخ (شامی: ۴: ۵۹۳، ۵۹۴ مطبوعہ مکتبہ زکریا دیوبند) بخلاف غیر المعینة فلو قال: المرأة التي أتزوجہا طالق طلقت بتزوجہا (الدر المنتقی: ۲/۵۷، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند