• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 57270

    عنوان: لفظ ”چھوڑدوں گا“ یا ”تمھیں طلاق دے دوں گا“ یہ دھمکی آمیز جملے ہیں

    سوال: میرا نام عبداللہ ہے۔ میں ملاوی کا رہنے والا ہوں۔ میری آج اپنی بیوی سے کسی بات پر لڑائی ہوگئی ہے اور میں نے غصہ میں یہ کہہ دیا کہ مجھے غصہ مت دلاوٴ میں تمہیں چھوڑ دوں گا تم اپنے باپ کے پاس چلی جاوٴ مجھے تمہاری کوئی ضرورت نہیں ہے میں تمہیں طلاق دے دوں گا بطور دھمکی کہا لیکن صرف ایک بار ہی کہا ہے اور یہی کہا کہ دے دوں گا یہ نہیں کہ دے دی یا دے رہا ہوں۔ اور ان سب کے بیچ میں میری امی نے ہمیں سمجھانے کی کوشش کی تو میں نے اپنی امی کو کہہ دیا کہ مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے اس کو سمجھا لو اس نے اب مجھ سے لڑائی کی تو میں اسے طلاق دے دوں گا۔ براہ کرم اب بتائیں کہ اس سے طلاق ہوجاتی ہے یا نہیں کیوں کہ اب ہم نے بیٹھ کر مسئلہ حل کرلیا ہے۔ آپ مہربانی کرکے جواب دیدیں۔

    جواب نمبر: 57270

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 328-328/M=4/1436-U لفظ ”چھوڑدوں گا“ یا ”تمھیں طلاق دے دوں گا“ یہ دھمکی آمیز جملے ہیں اور مستقبل میں طلاق دینے کے وعدے پر مشتمل ہیں ان جملوں سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی اور نیز یہ لفظ ”مجھے تمھاری کوئی ضرورت نہیں ہے“ اس سے بھی کوئی طلاق نہیں ہوئی؛ لیکن اگر بیوی کو طلاق کی نیت سے یہ کہا ہے کہ ”تم اپنے باپ کے پاس چلی جاوٴ“ تو اس سے ایک بائنہ طلاق واقع ہوگئی اور اگر طلاق کی نیت سے نہیں کہا تو کسی طرح کی کوئی طلاق نہیں ہوئی۔ فقال الزوج أطلق (طلاق می کنم) فکررہ ثلاثاً طلقت ثلاثاً بخلاف قولہ: سأطلق (طلاق می کنم) لأنہ استقبالٌ فلم یکن تحقیقا بالشک․ (الہندیة: ۱/۳۸۴، الطلاق بالألفاظ الفارسیة ط: رشیدیہ) ولو قال: لا حاجة لي فیک ینوي الطلاق فلیس بطلاقٍ․ (الہندیة: ۱/۳۷۵، کتاب الطلاق، الفصل الخامس في الکنایا) وبقیة الکنایات إذا نوی بہا الطلاق کانت واحد بائنة وإن نوی ثلاثاً کان ثلاثاً․․․ وہذا مثل قولہ․․․ وألحق بأہلک․․․ الخ․ (الہدایة: ۲/۳۷۴، ملتان)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند