عنوان: میں نے اپنی بیوی کو اس کی طہارت کی حالت میں تحریری شکل میں ایک طلاق دی تھی اس نیت کے ساتھ کہ تین حیض کے اندر اس سے رجوع کرلوں گا،
سوال: میں نے اپنی بیوی کو اس کی طہارت کی حالت میں تحریری شکل میں ایک طلاق دی تھی اس نیت کے ساتھ کہ تین حیض کے اندر اس سے رجوع کرلوں گا، تحریر پڑھنے کے بعد اس نے مجھے گلے لگالیا چہرہ سے چہرہ سے ملاتے ہوئے، اس کی باہیں میری گردن پر تھیں، اور کئی مرتبہ اس نے میرے گال کا بوسہ لیا، لیکن میں نے نہ تو اس کو گلے لگایا اورنہ ہی اس کابوسہ لیا تھا ، ہاں مگر جنسی ہیجانی ہوئی تھی، تو کیا یہ رجوع تھا ؟ کیوں کہ میری بیوی نے مجھے گلے لگایا اور بوسہ لیا تھا مگر میں نے اس کو نہ گلے لگایا اور نہ ہی بوسہ لیا تھا ۔
اس کے بعد وہ بچوں کو لے کر اپنے میکے چلی گئی ، ڈھائی مہینے کے بعد میں نے اس کو فون کیا یہ سوچ کر کہ رجوع کے لیے ابھی ایک حیض باقی ہے ، لیکن اس نے مجھے بتایا کہ عیسائی کلنڈر کے مطابق حسب معمول ماہواری کے خلاف اس ڈھائی مہینے کی مدت میں اس کو چارحیض آچکے تھے ، ہر مرتبہ پندرہ کے وقفے میں اور یہ تین چار دن تک آئی جیسا کہ اس کا معمول تھا، پہلے کبھی اس طرح کی بات نہیں ہوئی تھی، بلکہ ہر پندرہ دن کے بعد اس کو ماہواری آتی تھی۔
اگراس کے پہلے کے بوسہ اورگلے لگانے سے رجوع نہیں ہوا نیز تین سے زیادی حیض بھی آچکے ہیں تو ظاہر سی بات ہے کہ ہمیں دوبارہ نکاح کرنا ہوگا؟تو کیا یہ نکاح دو بالغ مرد دوستوں کے سامنے کیا جاسکتاہے؟خطبہ کے بغیر ؟صرف ایجاب وقبول ہو اور مہر کا ذکر بھی ہو؟مگر ہمارے والدین ، رشتہ دار اور بچوں کو اس بارے میں کوئی جانکاری نہ ہو؟ (بچے چھوٹے اور نابالغ ہیں)اور نہ ہی کسی کو پتا ہو کہ ہمیں طلاق ہوگئی ہے؟یا کیا صرف ہمارے والدین گواہ ہوسکتے ہیں اگر ان کو بتا کر دوبارہ نکاح کریں؟
ہم ایک دوسرے سے جدا ہونا نہیں چاہتے ہیں جو نادانستہ طورپر ہوچکاہے۔ براہ کرم، قرآن وحدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں تاکہ بیوی کے ساتھ میرا تعلق جائز رہے؟
جواب نمبر: 5653631-Aug-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 325-325/Sd=7/1436-U صورت مسئولہ میں اگر آپ کی بیوی نے طلاق کی تحریر پڑھنے کے بعد آپ کو گلے لگایا تھا نیز بوسہ بھی لیا تھااور اس وقت آپ کی شہوت کی کیفیت تھی، تو شرعاً رجوع ہوگیا، اب دوبارہ نکاح کی ضرورت نہیں ہے، آپ کی بیوی بدستور آپ کے نکاح میں باقی ہے۔ واضح رہے کہ ایک طلاق دینے کی وجہ سے اب آپ کے لیے آئندہ دو طلاق کا اختیار باقی ہے، دو طلاق ہی سے بیوی مغلظہ بائنہ ہوجائے گی۔ قال في الہندیة: وکما تثبت الرجعة بالقول تثبت بالفعل، وہو الوطئ واللمس عن شہوة، کذا في النہایة وکذا التقبیل عن شہوة - لا فرقَ بین کون القبلة والنظر واللمس منہا أو منہ في کونہ رجعیة إذا کان ما صدر منہا بعلمہ ولم یمنعہا اتفاقًا- إلخ (الہندیة: ۱/۵۳۲، الباب السادس في الرجعة وفیما تحل بہ المطلقة وما یتصل بہ) وقال الحصکفي: الرجعة: ہي استدامة الملک القائم في العدة بنحو: راجعتک - بکل ما یوجب حرمة المصاھرة کمس ولو منھا اختلاسا، أو نائما، أو مکرھا أو مجنونا، أو معتوھا إن صدقھا ھو- إلخ قال ابن عابدین: قولہ: ”إن صدقہا“ قال في الفتح: ہذا إذا صدقہا الزوج في الشہوة، فإن أنکر لا تثبت الرجعة (الدر المختار مع رد المحتار: ۵/۲۳، باب الرجعة)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند