• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 54829

    عنوان: عدت کے بعد بچے کس کے پاس رہیں گے؟

    سوال: میری شادی ۱۳ سال پہلے ہوئی، میرے دو بیٹے (ایک بارہ سال اور دو سال )اور ایک بیٹی ہے (آٹھ سال کی )، میری بیوی کے شادی سے پہلے ایک لڑکے سے تعلقات تھے، ، اس نے یہ بات مجھے شادی سے پہلے بتائی تھی اور کہا تھا کہ اب میرا اس سے کوئی لینا دینا نہیں، شادی کے بعد بچے تو ہوتے گئے ، لیکن میری بیوی مجھ سے جنسی طورپر مطمئن نہیں ہوتی تھی، اس کے لیے کافی علاج بھی کروایا ، لیکن مسئلہ حل نہیں ہوا، آج مجھے میرے بیٹے نے بتایا کہ وہی لڑکا میرے آفس جانے کے بعد ماں کو ملنے آتاہے، جب میں نے اپنی بیوی سے پوچا تو اس کہا کہ ہاں ، یہ بات ٹھیک ہے اور میں آپ سے طلاق لینا چاہتی ہوں۔ میرا سوال یہ ہے کہ : (۱) اگر میں طلاق دیتاہوں تو کیا وہ میرے گھر میں عدت پوری کرسکتی ہے؟ (اس کے والدین کا انتقال ہوگیا ہے) (۲) عدت کے بعد بچے کس کے پاس رہیں گے؟ (۳) اگر بیوی اپنے پاس بچے رکھتی ہے تو میں کب تک (کس عمر تک)بچوں کا نان و نفقہ دینے کا پابند ہوں ؟ (۴) نان و نفقہ کی رقم کیا ہوگی؟

    جواب نمبر: 54829

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1741-1466/B=11/1435-U (۱) اگر علیحدہ کوئی کمرہ ہے جس میں رہ کر وہ آپ سے اور دوسروں سے پردہ کے ساتھ رہ سکتی ہے تو وہ آپ کے گھر ہی عدت پوری کرسکتی ہے۔ (۲) جو بیٹا سات سال کی عمر کا ہوجائے تو اس کی پرورش کا حق باپ کو حاصل ہے۔ اور جو بیٹا اس سے چھوٹا ہے اس کی پرورش سات برس کی عمر تک ماں کرے گی اس کا خرچ باپ کے ذمہ ہوگا۔ اور لڑکی بالغ ہونے تک ماں کی پرورش میں رہے گی اور اس کا سارا خرچہ باپ کے ذمہ ہوگا۔ بالغ ہونے کے بعد باپ کی پرورش میں رہے گی۔ (۳) اس کا جواب آچکا۔ (۴) آج کل کی گرانی کے حساب سے کھانے پینے، پہننے اوڑھنے، دوا علاج، تعلیم کے اخراجات کو ۴-۶ آدمی بیٹھ کر جس قدر رقم طے کردیں اتنی رقم آپ کو دینا پڑے گی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند