• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 54161

    عنوان: طلاق دے رہا ہوں کا جملہ صریح ہے

    سوال: میں نے جنوری 2014 کے پہلے ہفتے میں اپنی بیوی کو فون پر ایک طلاق دی کہ میں تجھے طلاق دیتاہوں، یہ لفظ ایک مرتبہ کہا، مطلب ایک طلاق، اس کے پندرہ دن بعد میں اس کے گھرگیا اورنہ اس نے اپنے گھر والوں بتایا ، نہ میں نے․․․ اور ہم آپس میں ملے مطلب ہمبستری کی ، اس کے بعد ۲۹ اپریل کو میں نے اس نیت سے اپنی ساس کو فون کیا کہ اپنی بیٹی کو ڈراؤں گا کہ اپنی بیٹی کو سمجھائیں اور اگرنہ مانی تو میں ندا کا نام لے کر طلاق دیدوں گا، میری بیوی کا اصل نام رویدہ مومل ہے جو نکاح نکاح نامہ میں اور ہر جگہ پر استعمال ہوتاہے ، کوئی اسے ندا ،کوئی مومل ، کوئی ندز کہتاہے، ․․․․․ اس کے علاوہ اور بھی خاندان میں نداہیں، اب میں نے ساس سے بحث کرتے ہوئے کہہ دیا کہ میں ندا کو طلاق دے رہا ہوں ، طلاق دے رہا ہوں، طلاق دے رہاہوں ، مطلب تین مرتبہ، اور پھر فون بند کردیا ، پھر میں نے اپنے گھروالوں کو کہا کہ میں نے طلاق تو ندا کو دی ہے ، میری بیوی وہ تھوڑی ہے، میرا نکاح تو رویدہ سے ہے۔ براہ کرم، رہنمائی فرمائیں ۔ میری دو بیٹیاں ہیں اور نہ میری نیت تھی کہ میں طلاق اپنی بیوی کو دے رہا ہوں، کیوں کہ یہ ارادہ میرا ڈرانے کا تھا۔

    جواب نمبر: 54161

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1100-865/D=9/1435-U طلاق دے رہا ہوں کا جملہ صریح ہے اس سے نیت کرنے اور نہ کرنے دونوں صورت میں طلاق واقع ہوجاتی ہے اسی طرح آپ کا مقصد ڈرانا دھمکانا ہو تو بھی طلاق پڑجاتی ہے، ثلاث جدہن جد وہزلہن جد الطلاق الخ․ لہٰذا صورت مسئولہ میں جب آپ کی بیوی کا نام بھی ندا ہے اور بعض لوگ ندا کہہ کر اسے پکارتے بھی ہیں تو ایسی صورت میں آپ کی بیوی پر تین طلاق مغلظہ واقع ہوگئی، دونوں کا رشتہ نکاح بالکلیہ ختم ہوگیا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند