عنوان: مسئلہ یہ ہے کہ ہماری ایک سگی بہن جو کہ 1995میں بیوہ ہوگئی تھیں،وہ اپنے پانچ چھوٹے بچوں سمیت ہمارے یہاں رہنے لگیں ، کھاناپینا سب ساتھ تھا ، ان کے شوہر نے کوئی پیسہ یا جائداد نہیں چھوڑی تھی، اب بچے بڑے ہوگئے ، پڑھ لکھ لیاہے، نوکری سے لگ گئے ہیں ، اب کمانے لگے ہیں تو پھر 2003 میں ان کا کھانا پینا الگ کردیا جس پر تھوڑا ناراض بھی ہوئیں، اب ان لوگوں نے مکان بھی لیا ہے اور اسے کرایہ پر دیدیا ہے ، اب چاہئے تھا کہ اپنے مکان میں شفٹ ہوجاتیں مگر ایسا نہیں ہوا، مزید یہ کہ کسی چیز کا بل وغیرہ بھی نہیں دیتیں ہیں، خالی کرنے کو بولوں توخالی بھی نہیں کرتی ہیں۔ کیا کورٹ کے ذریعہ خالی کروایا جائے؟ کہیں یہ صلہ رحمی کے خلاف تو نہیں ہوگا؟براہ کرم، جواب دے کر ممون فرمائیں۔
سوال: مسئلہ یہ ہے کہ ہماری ایک سگی بہن جو کہ 1995میں بیوہ ہوگئی تھیں،وہ اپنے پانچ چھوٹے بچوں سمیت ہمارے یہاں رہنے لگیں ، کھاناپینا سب ساتھ تھا ، ان کے شوہر نے کوئی پیسہ یا جائداد نہیں چھوڑی تھی، اب بچے بڑے ہوگئے ، پڑھ لکھ لیاہے، نوکری سے لگ گئے ہیں ، اب کمانے لگے ہیں تو پھر 2003 میں ان کا کھانا پینا الگ کردیا جس پر تھوڑا ناراض بھی ہوئیں، اب ان لوگوں نے مکان بھی لیا ہے اور اسے کرایہ پر دیدیا ہے ، اب چاہئے تھا کہ اپنے مکان میں شفٹ ہوجاتیں مگر ایسا نہیں ہوا، مزید یہ کہ کسی چیز کا بل وغیرہ بھی نہیں دیتیں ہیں، خالی کرنے کو بولوں توخالی بھی نہیں کرتی ہیں۔ کیا کورٹ کے ذریعہ خالی کروایا جائے؟ کہیں یہ صلہ رحمی کے خلاف تو نہیں ہوگا؟براہ کرم، جواب دے کر ممون فرمائیں۔
جواب نمبر: 5397201-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1124-1124/M=10/1435-U
کوشش کیجیے کہ کورٹ تک معاملہ نہ پہنچے، اس کے بغیر آپسی گفت وشنید کے ذریعہ ہی مسئلہ حل ہوجائے، اگر نرمی سے کام نہ چلتا ہو تو حدود میں رہ کر سخت انداز بھی اپنایا جاسکتا ہے، اور جائز حق کے لیے ایسا کرنا صلہ رحمی کے خلاف نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند