• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 53850

    عنوان: بہت عرصہ پہلے میں نے اکیلے میں(خود کلامی کرتے ہوئے اور بیوی کی غیر موجودگی میں) اپنی بیوی کو طلاق دی اور یہ بات میرے علم میں آج آئی کہ ایسا کرنے سے طلاق واقع ہو جاتی ہے

    سوال: بہت عرصہ پہلے میں نے اکیلے میں(خود کلامی کرتے ہوئے اور بیوی کی غیر موجودگی میں) اپنی بیوی کو طلاق دی اور یہ بات میرے علم میں آج آئی کہ ایسا کرنے سے طلاق واقع ہو جاتی ہے ۔ بیوی یا کسی کا طلاق کے الفاظ سننا ضروری نھیں ھے . مجھے یہ یاد نہیں کہ میں نے طلاق کے الفاظ کتنی مرتبہ کہے . قوی گمان یھی ھے کہ تین مرتبہ ہی کہے اور اس کے بعد رجوع کا کوئی جملہ نہیں بولا تو اب میرے لیے کیا حکم ہے ۔اگر طلاق واقع ہو گئی ہے تو کیا حلالہ کی نیت سے میرے بیوی کسی اور سے نکاح کر سکتی ہے جبکہ ایسا کرتے ہوئے نیت خالصتا یہ ہو کہ ہم دونوں دوبارہ اکٹھے ہو سکیں اور یہ بات فریق ثانی کے علم میں بھی ہو کہ وہ یہ نکاکس لیے کر رہا ہے .

    جواب نمبر: 53850

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1174-960/H=9/1435-U جب کہ آپ کو قوی گمان تین طلاق دینے کا ہے تو ایسی صورت میں تین طلاق واقع ہوکر بیوی آپ پر حرام ہوگئی، آپ کو اب نہ حق رجعت باقی ہے اور نہ ہی تجدید نکاح بغیر حلالہٴ شرعیہ کا استحقاق ہے، مطلقہ بیوی کو البتہ حق حاصل ہوگیا کہ بعد انقضائے عدت علاوہ آپ کے وہ جس سے چاہے عقد ثانی کرلے دوسرا شوہر بعد جماع کے بقضائے خداوندی انتقال کرجائے یا بعد جماع کے وہ طلاق دیدے او ربہرصورت عدت مکمل گذرجائے تب عورت کو پھر اپنے نکاح جدید کا استحقاق ہوجائے گا، اس وقت اگر چاہے گی تو آپ سے بھی نکاحِ جدید کرلے گی اگر شوہر ثانی کے دل میں یہ بات ہو کہ میں باقاعدہ نکاح کرکے بعد جماع کے طلاق دے کر عورت کو آزاد کردوں گا تاکہ وہ اپنے سابق شوہر سے نکاح کرلے تب بھی نکاح سابق شوہر سے بعد انقضائے عدت درست وحلال ہوجائے گا، البتہ شوہر اول یا کسی اور شخص کا شوہر ثانی سے باقاعدہ عہد وپیمان اور شرط لگاکر نکاح کرنا لعنت اور گناہ کا موجب ہے، الغرض تین طلاق کی عدت گذرجانے کے بعد اپنے نکاحِ ثانی کا کلی اختیار عورت کو حاصل ہوجاتا ہے، نیز نکاحِ ثانی کے بعد طلاق دینے نہ دینے کا مکمل اختیار شوہرِ ثانی کو حاصل رہتا ہے جب وہ اپنی مرضی واختیار سے طلاق دیدے تو طلاق واقع ہوجاتی ہے اور بعد جماع کے طلاق دینے پر عدت واجب ہوجاتی ہے اور عدت گذرنے پر نکاحِ جدید کا پورا پورا اختیار عورت کو حاصل ہوجاتا ہے وہ جہاں چاہے اپنا نکاح کرلے، اگر اس وقت چاہے گی تو شوہر سابق سے بھی نکاح کرسکتی ہے، حلالہٴ شرعیہ سے یہی مراد ہے، بخاری شریف فتاوی ہندیہ نیز دیگر کتب حدیث شروح حدیث اور فقہ وقتاوی سے اسی طرح ثابت ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند