• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 50226

    عنوان: عورت کو اپنے شوہر سے جان کا بھی خطرہ ہے ۔ تو جج نے کورٹ طلاق لکھ کر دستخط مہر لگا کر دیے ۔ بعد میں دیکھا گیا تو ان کورٹ والے کاغذات میں کورٹ نے طلاق نہیں لکھا بلکہ خلع لکھا ہے ۔ تو کیا اس سے طلاق واقع ہوگئی

    سوال: ایک عورت کو اپنا شوہر کچھ بھی خرچہ نہیں دیتا تھا، اور ایک بار اس عورت کو شوہر نے آگ لگا کر جلا کر مارنے کی کوشش بھی کی تھی لیکن وہ عورت جان بچا کر بھاگ نکلی تھی۔ ان باتوں پر عورت کے پاس گواہ بھی تھے اسلیے عورت نے پاکستان کے انگلش کورٹ میں جاکر جج سے مطالبہ کیا کہ شوہر سے طلاق دلوائی جائے ۔ شوہر کورٹ کے لیٹرس پر بھی کورٹ میں حاضر نہ ہوا تو جج نے عورت سے گواہوں کی گواہی لی کہ واقعی اس کو شوہر خرچہ بھی نہیں دیتا تھا اور اس عورت کو اپنے شوہر سے جان کا بھی خطرہ ہے ۔ تو جج نے کورٹ طلاق لکھ کر دستخط مہر لگا کر دیے ۔ بعد میں دیکھا گیا تو ان کورٹ والے کاغذات میں کورٹ نے طلاق نہیں لکھا بلکہ خلع لکھا ہے ۔ تو کیا اس سے طلاق واقع ہوگئی، جبکہ ابھی تک شوہر نے نہ طلاق دی ہے اور نہ طلاق دینا چاہتا ہے ۔ اور اگر ایسے میں کورٹ سے خلع کے الفاظ مٹوا کر طلاق کے الفاظ لکھوا کر دوبارہ دستخط کرائی جائے تو طلاق واقع ہوجائے گی؟

    جواب نمبر: 50226

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 286-286/M=6/1435-U خلع جانبین (شوہر بیوی) کی رضامندی سے ہوتا ہے، محض کورٹ کے خلع لکھ دینے سے نہیں ہوتا، نیز انگلش کورٹ میں جج مسلم ہے یا غیر مسلم یہ بھی واضح نہیں، مذکورہ عورت کا شوہر اگر واقعی متعنت ہے یعنی بیوی کا نفقہ نہیں دیتا اور نہ طلاق دے کر زوجیت سے آزاد کرتا ہے تو عورت کو چاہیے کہ شرعی عدالت میں اپنا معاملہ پیش کرے، اور وہاں سے شرعی ضابطے کے مطابق جو فیصلہ ہو اس پر عمل کرے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند