• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 4883

    عنوان:

    طلاق معلق کی وضاحت مطلوب ہے

    سوال:

    میں نے طلاق معلق کے بارے میں سناہے ، براہ کرم، اس کی وضاحت کریں۔ اگر کوئی ا پنی بیوی سے یہ کہتاہے:” اگر تم اپنی بہن کے گھر گئی ہو تو میں تجھے طلاق دیتاہوں“ ( ماضی کا صیغہ استعمال کیاگیاہے)میں طلاق معلق کے بارے سابقہ فتاوے پڑھ چکی ہوں ، لیکن واضح طورپر ماضی اور مستقبل کے صیغوں کا استعمال نہیں ہے۔ مذکورہ بالا جملہ میں صراحت کے ساتھ ماضی کا صیغہ مستعمل ہے۔( بیوی اپنے شوہر کو بتائے بغیر اپنی بہن کے گھر جایاکرتی ہے۔ جب شوہرنے یہ کہا تو اس کی نیت طلاق دینے کی نہیں تھی۔ اس طرح کی طلاق کے بارے میں اسلامی حکم کیاہے؟

    جواب نمبر: 4883

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 212/ ج= 208/ ج

     

    اگر ماضی پر طلاق کو معلق کیا جائے تو تعلیق لغو ہوجاتی ہے اور بولی ہوئی طلاق فی الفور واقع ہوجاتی ہے وإن أضاف الطلاق إلے الزمان الماضي وکانت المرأة في مکلہ یقع الطلاق للحال (البدائع، ج۴ ص۲۹۱) صورتِ مذکورہ ”اگر تم اپنی بہن کے گھر گئی ہو تو میں تجھے طلاق دیتا ہوں“ میں چوں کہ ماضی پر تعلیق کی گئی ہے اس لیے تعلیق لغو ہوگئی اور بیوی پر ایک طلاقِ رجعی واقع ہوگئی۔ زمانہٴ عدت میں اگر شوہر بیوی سے رجوع کرلے (قول کے ذریعہ رجوع کرے مثلاً یہ کہے کہ تم کو اپنے نکاح میں واپس لیتا ہوں یا فعل کے ذریعہ بایں طور کہ زوجین میاں بیوی کی طرح رہنا شروع کردیں) تو نکاح برقرار رہے گا۔ البتہ آئندہ شوہر صرف دو طلاق کا مالک رہ جائے گا۔ صورتِ مذکورہ میں شوہر نے چوں کہ صریح لفظ استعمال کیا ہے اس لیے طلاقِ رجعی واقع ہوجائے گی ایقاعِ طلاق یا عدمِ ایقاع طلاق کی نیت معتبر نہ ہوگی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند