• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 4881

    عنوان: بیوی نے طلاق مانگی میں نے اسی وقت تین طلاق دیدی

    سوال:

    میری شادی کو تین سال پورے ہوئے ہمارا ایک دو سال کا بیٹا بھی ہے جو اب اسی کے پاس ہے۔ شادی کے بعد میری بیوی مجھ پر بہت شک کرتی تھی اور میری سگی بہن اور رشتہ داروں کے ساتھ میرا ناجائز رشتہ رکھنے کا الزام لگاتی تھی، اور مجھ سے ہمیشہ جھگڑتی تھی۔ پچھلے سال جب میں انڈیا چھٹی پرآیا تھا تو اس کا رویہ ویسا ہی تھا۔ اور ایک دن اس نے اس کی بڑی بہن اور اس کے بچوں کے سامنے جو کہ سب بالغ ہیں میرے ہاتھ میں قرآن دیا اور مجھ سے طلاق مانگا۔ میں بھی کتنا برداشت کرتا میں نے اسے اسی وقت تین بار طلاق بولا (تجھے طلاق دیا)، اب وہ اور اس کی بہن جھوٹ بولتی ہیں کہ اس نے طلاق نہیں مانگی، بلکہ میں نے اسے طلاق دیا ۔ حالانکہ مجھے پتہ تھا کہ وہ لوگ جھوٹ بولیں گے، اس لیے میں نے ان کیکچھ باتیں میرے موبائل میں ویڈیو ریکارڈنگ کرکے رکھ لی ہیں۔ وہ حل کرکے مجھ سے پھر رشتہ جوڑنا بھی چاہتی ہے۔ میں اب اس عورت سے رشتہ نہیں جوڑنا چاہتا۔ اب میں اس کا اور بچہ کا خرچ بھی نہیں بھیجتا ہوں۔ فی الحال وہ اپنے ماں کے گھر رہتی ہے، کیوں کہ میں کرائے کے گھر میں رہتا تھا اور یہ واقعہ ہونے کے فوراً بعد میں کویت چلا آیا اور اسے کرایہ اور خرچ کا پیسہ بھیجنا بند کردیا۔ اب اس کے بڑے بھائی لوگ میرے انڈیا آنے کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ وہ مجھے مار سکیں۔ میں آپ لوگوں سے گذارش کرتا ہوں کہ مجھے دارالافتاء کے لیٹر پیڈ پر اس بارے میں فتوی لکھ کر بھیجیں۔ کہ یہ طلاق ہوچکی ہے یا نہیں؟ اورحلالہ کااصل طریقہ کیا ہے ،تاکہ میں آپ کا خط ان کے بھائیوں کو بھیج سکوں اور ان کو سمجھ میں آجائے۔ وہ لوگ مجھ سے رشتہ جاری رکھنے کے لیے زور دے رہے ہیں۔

    جواب نمبر: 4881

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1051=1367/ ھ

     

    تین طلاق واقع ہوکر آپ کی بیوی آپ پرحرام ہوگئی بعد انقضاءِ عدت علاوہ آپ کے وہ جہاں چاہے اپنا عقد ثانی کرسکتی ہے۔ دوسرا شوہر بعد جماع کے وفات پاجائے یا بعد جماع کے طلاق دے دے اور پھربہرصورت عدت گذرجائے اوراس وقت وہ چاہے تو اس کی رضامندی سے آپ کے ساتھ بھی نکاح جدید ہوسکتا ہے، آپ کے حق میں عورت مذکورہ کے حلال ہونے کی کوئی سبیل اس کے علاوہ نہیں ہے۔ بخاری شریف ج:۲/ ص:۷۹۱، فتاوی الہندیہ، ج:۱/ص:۵۰۱ وغیرہ میں تصریح ہے۔ آپ نے تین طلاق بیوی کے مطالبہ سے متأثر ہوکر دی ہوں یا اس کے مطالبہ کے بغیر دی ہوں بہر صورت ایک ہی حکم ہے جو تفصیل سے اوپر لکھ دیا۔ بتوسط انٹرنیٹ (ای میل) فتوی کو دارالافتاء کے لیٹر پیڈ پر نہیں ارسال کیا جاسکتا۔ آپ جوابی لفافہ میں استفتاء اگر بھیجیں گے اوراس میں لیٹر پیڈ پر جواب لکھنے کی درخواست کریں گے تواس کی تعمیل ان شاء اللہ کردی جائے گی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند