• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 46449

    عنوان: جن كنائی الفاظ سے طلاق ہی سمجھی جائے ان الفاظ سے كس طرح كی واقع ہوگی؟

    سوال: سوال نمبر:۔ ایسے الفاظ جو متقدمین کے دور میں کنایہ طلاق میں شمار کیے جاتے تھے اب اگر ان الفاظ سے ہر عامی شخص بیوی کو طلاق دینا ہی سمجھے توکیا اس سے طلاق بائن واقع ہو گی یارجعی؟ اور اس کے لئے نیت کی ضرورت ہوگی؟ مثلاً،شوہر کے الفاظ بیوی کے لئے میں تجھے رہاکرتا ہوں،میں تجھے آزاد کرتا ہوں وغیرہ آپ سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ فقہ حنفی کی روشنی میں مفصّل اورمدلل جواب ارشاد فرمائیں اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔آمین

    جواب نمبر: 46449

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1128-893/H=9/1434 صریح الفاظِ طلاق یا بمنزلہٴ صریح ”میں تجھے رہا کرتا ہوں (ب) میں تجھے آزاد کرتا ہوں“ سے جب طلاق دی ائے تو ایک ہونے کی صورت میں ایک طلاق رجعی واقع ہوتی ہے اور دو دینے کی صورت میں دو اور تین میں تین واقع ہونے کا حکم ہوتا ہے، البتہ غیر مدخول بہا وغیرمختلی بہا میں الگ الگ طلاق دی گئی ہوں تو صرف ایک واقع ہوتی ہے اور اسی ایک سے بائن ہوجاتی ہے او ردوسری تیسری طلاق کا عورت محل نہیں رہتی ہاں اگر لفظ واحد سے تین طلاق دیدیں مثلاً کہہ دیا تجھ کو تین طلاق تو ایسی صورت میں تین کا حکم لاگو ہوتا ہے نیز الفاظِ صریح یا ایسے الفاظ جو صریح میں مستعمل ہونے لگیں جب ان سے مدخول بہا کو طلاق دی جائے تو ایک اور دو کی صورت میں طلاق رجعی واقع ہوجاتی ہے خواہ نیت طلاق کی ہو یا نہ ہو، خواہ ڈرانے دھمکانے کی نیت ہو یا کچھ نیت نہ ہو بہرصورت طلاق واقع ہوجاتی ہے، فتاوی شامی وغیرہ کتبِ فتاوی تو آپ کے ملاحظہ میں ہیں، اس لیے نقل عبارت کی حاجت معلوم نہیں ہوتی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند