• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 46448

    عنوان: كنائی الفاظ كب صریح شمار ہوں گے؟

    سوال: سوال:کیا علامہ حصکفی رحمة اللہ علیہ اور علامہ ابن عابدین المعروف شامی علیہ الرحمہ اور دیگر فقہاء کرام کی صریح طلاق کی تعریفات مثلاً (صریحہ مالم یستعمل الا فیہ)ولو بالفارسیة۔(درمختارمع تنویر الابصار، باب الصریح، ج:، ص:، مطبوعہ، مکتبہ امدادیہ ملتان)۔ ردالمحتارمیں ہے :الصریح ما غلب فی العرف استعمالہ فی الطلاق بحیث لا یستعمل عرفا الا فیہ من أي لغة کانت۔ الی آخرہ۔ (رد المحتار ،باب الصریح،ج:، ص:،مکتبہ امدادیہ ملتان) ۔ سوال:۔ آج کے دور میں پاکستان و ہندوستان میں بولی جانے والی زبانوں کے الفاظ کو شامل ہو گی مثلاً کوئی مردلفظ طلاق جو کہ عربی لغت کا ہے استعمال نہیں کرتا مثلاً لفظ آزاد کو مختلف جملوں میں استعمال کرتے ہوئے کہے تم میری طرف سے آزاد ہو،میں نے تمہیں آزاد کر دیا وغیرہ اورشوہرمذکورہ جملوں کا کوئی خاص محمل بیان نہیں کر تا جس سے معلوم ہو کہ اس نے یہ جملہ طلاق کے لئے نہیں بولاتو کیا یہ جملہ مذکورہ تعریفات کے مطابق فی زمانہ صریح طلاق کے الفاظ میں شمار ہو گایا نہیں؟۔ اور اسی طرح لفظ فارغ اورلفظ چھوڑا ہے۔ یہ بھی فی زمانہ صریح الفاظ طلاق میں شمار ہوں گے یانہیں؟

    جواب نمبر: 46448

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1127-890/H=9/1434 (۱) میری طرف سے آزاد ہو (ب) میں نے تمھیں آزاد کردیا، یہ جملے زوجین کے معاملات میں عرفاً اب بمنزلہٴ طلاق صریح مستعمل ہیں۔ (۲) لفظ فارغ تنہا ہمارے یہاں ہندوستان میں عامةً نہیں بولا جاتا البتہ فارغ خطی کا استعمال صریح میں بہت عام ہے اگر آپ کے علاقہ میں ”لفظ ”فارغ“ تنہا بھی طلاق صریح میں مستعمل ہو اور اسی طرح لفظ ”چھوڑا“ تو ان الفاظ سے طلاق صریح ہی مراد ہوگی، اور ان پر طلاقِ صریح کے احکام جاری ہوں گے، فتاویٰ شامی کی جو عبارت آپ کے ملاحظہ میں ہے اس سے یہی ثابت ہوتا ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند