معاشرت >> طلاق و خلع
سوال نمبر: 43262
جواب نمبر: 43262
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 115-97/N=2/1434 جمہور صحابہ، تابعین اور تبع تابعین وغیرہ اور چاروں ائمہ (امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی، اور امام احمد رحمہم اللہ) اس پر متفق ہیں کہ تین طلاقیں ایک ساتھ ایک جملہ میں دی جائیں تو وہ تین ہی واقع ہوتی ہیں، ایسا نہیں ہے کہ صرف ایک واقع ہو اور اس سلسلہ میں غیرمقلدین کی رائے صحیح نہیں اور نہ ہی اس پر عمل کرنا جائز ہے، قال اللہ تعالی: ﴿فَاِنْ طَلَّقَہَا فَلاَ تَحِلُّ لَہ مِنْ بَعْدُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہ﴾ (سورہٴ بقرہ، آیت: ۲۳۰) وقال الجصاص في أحکام القرآن (۲/۸۵، ط دار إحیاء التراث العربي بیروت لبنان): ․․․ فالکتاب والسنة وإجماع السلف توجب إیقاع الثلاث معا وإن کانت معصیة اھ وفي مجلة البحوث الإسلامیة (المجلد الأول العدد الثالث سنة 1397 الہجریة حکم الطلاق الثلاث بلفظ واحد ص:139-124): المسألة الثانیة فیما یترتب علی إیقاع الثلاث بلفظ واحد؛ وفیہ مذاہب: المذہب الأول أنہ یقع ثلاثا وہو مذہب جمہور العلماء من الصحابة والتابعین ومن بعدہم، وقد استدلوا لذلک بأدلة من الکتاب والسنة والآثار والإجماع والقیاس․․․اھ وقال في الفتاویٰ الہندیة (کتاب الطلاق باب في الرجعة فصل في ما تحل بہ المطلقة وما یتصل بہ ۱/۴۷۳، ط زکریا دیوبند): وإن کان الطلاق ثلاثا في الحرة․․․ لم تحل لہ حتی تنکح زوجا غیرہ نکاحا صحیحا ویدخل بہا ثم یطلقہا أو یموت عنہا کذا في الہدایة اھ․
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند