• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 42889

    عنوان: بغیر شہوت كے بہو كا چہرہ چھونا

    سوال: اگر سسر اپنی بہو ک چہرے پہ ہاتھ لگا لے بغیر شہوت کے تو بھی وہ بہو اسکے بیٹے کے لیے حرام ہوجائے گی ، اب نہ سسسر کے لیے حلال رہے گی اور نہ وہ اپنے شوہر کے لیے حلال رہے گی، کیوں کہ چہرہ متلقی شہوت کی جگا ہے، اسکو چھونے کے لیے شہوت کا ہونا ضروری نہیں ہے، اور یہی حکم سینے کا بھی ہے ، براہ کرم قرآن و سنّت کی روشنی میں واضح دلائل کے ساتھ بتائیں کہ یہ بات کس حد تک درست ہے؟ اور سسر کے بہو کے ساتھ محرم ہونے کی حیثیت سے کس طرح کے تعلقات ہو سکتے ہیں؟

    جواب نمبر: 42889

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 575-555/N=5/1434 (۱) آپ نے جو بات نقل کی ہے وہ صحیح نہیں ہے، غلط ہے، صحیح بات یہ ہے کہ اگر سسر بہو کے چہرے پر ہاتھ لگائے اور کہے کہ میں نے شہوت کے بغیر ہاتھ لگایا ہے تو بیٹے کی تصدیق کے ساتھ اس کی بات کا اعتبار کیا جائے گا اور بہو بیٹے پر حرام نہ ہوگی، ہاں البتہ اگر انتشارذکر کی حالت میں بہو کے پاس اٹھ کر جائے اور بہو شہوت کا دعویٰ کرے اور سسر انکار کرے تو چونکہ اس صورت میں سسر کا انکارِ شہوت دلیل شہوت: انتشار ذکر کے خلاف ہے اس لیے اس کے انکار کا اعتبار نہ ہوگا اور بہو بیٹے پر حرام ہوجائے گی بشرطیکہ بیٹے کو بیوی کی صداقت کا غالب گمان ہوجائے کیونکہ شرمگاہ اور پستان کے علاوہ کہیں اور ہاتھ لگانے میں اصل عدم شہوت ہے قال في رد المحتار (کتاب النکاح ۴:۱۱۲ ط: مکتبة زکریا دیبوند): وفي البقالي: إذا أنکر الشہوة في المس یصدق إلا أن یقوم إلیہا منتشرا فیعانقہا لقریة کذبہ أو یأخذ ثدیہا أو یرکب معہا أو یمسہا علی الفرج․․․ اھ وفي الرد: ولم یذکر المس، وقدمنا عن الذخیرة أن الأصل فیہ عدم الشہوة مثل النظر فیصدق إذا أنکر الشہوة إلا أن یقوم إلیہا منتشرا أي: لأن الانتشار دلل الشہوة وکذا إذا کان الشمس علی الفرج کما مر عن الحدادي لأنہ دلیل الشہوة غالبا اھ․ واضح رہے کہ حرمت مصاہرت کا مسئلہ انتہائی نازک ہے اس لیے اگر سسر کے بہو کو چھونے کے متعلق کوئی واقعہ پیش آئے تو علاقہ کے معتبر ومستند مفتیان کرام سے رجوع کرکے صحیح صورت حال ان کے سامنے رکھی جائے اور متعلق افراد کے بیانات بھی، پھر وہ حضرات جو حکم شرعی بتائیں اس کے مطابق عمل کیا جائے۔ (۲) اگر سسر اور بہو دونوں متدین، نیک وصالح اور ایک دوسرے سے مامون ومطمئن ہیں تو سسر بہو کے ساتھ بیٹی جیسا اور بہو سسر کے ساتھ باپ جیسا معاملہ کرے اور بہرصورت دونوں جسمانی خدمت لینے اور کرنے اور بے جا بے تکلفی وغیرہ سے پرہیز کریں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند