• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 42174

    عنوان: طلاق

    سوال: کیا طلاق کے الفاظ کا زبان سے ادا کرنا لازمی ہوتا ہے؟ یا اگر طلاق کے الفاظ صرف ذہن میں بلا ارادہ اور بغیر نیت کے آجائیں تو کیا اس صورت میں طلاق ہو جائے گی؟(اور زبان سے ادا نہ کئے گئے ہو)․ اور ایسے الفاظ نفسیاتی بیماری کی وجہ سے کسی کے ذہن میں نہ چاھتے ھوئی بار بار آتے ہوں تو کیا جائے؟ براہ کرم، رہنمائی فرمائیں۔

    جواب نمبر: 42174

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1077-1060/N=12/1433 (۱) جی ہاں! طلاق واقع ہونے کے لیے الفاظ طلاق کا زبان سے ادا کرنا لازم وضروری ہے، صرف نیت کرنا یا بلانیت وارادہ الفاظ طلاق کا ذہن میں آجانا طلاق واقع ہونے کے لیے کافی نہیں، قال في الأشباہ والنظائر (ص:۴۸، ط: دارالکتب العلمیہ بیروت لبنابن): وأما الطلاق والعتاق فلا یقعان بالنیة بل لابد من الفظ... اھ وقال في مراقي الفلاح (مع حاشیة الطحطاوي کتاب الصلاة باب شروط الصلاة أرکانہا ص۲۱۹، ط: دارالکتاب دیوبند):... حتی لو أجری الطلاق علی قلبہ وحرک لسانہ من غیر تلفظ یسمع لا یقع وإن صحح الحروف اھ وفي الحاشیة: قولہ: ”حتی لو أجری“: إنما ذکرہ لأنہ محل الوہم فإذا لم یجرہ علی قلبہ والمسألة بحالہا فعدم الوقوع أولی اھ. (۲) نہیں (حوالہ بالا) (۳) اس کا علاج صرف یہ ہے کہ ایسے وساوس وخطرات کو اہمیت نہ دی جائے اور ان کی طرف سے دھیان ہٹاکر کسی اور طرف متوجہ کرلیا جائے، اللہ تعالیٰ مریض کو شفا عنایت فرمائیں۔ آمین


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند