• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 42041

    عنوان: خلع میاں بیوی كے درمیان ہوتا ہے۔

    سوال: میرانام کاشف نوید ہے اور میرا تعلق کوئٹہ ، پاکستان، سے ہے ، بات یہ ہے کہ میری شادی کو چار سال ہوگئے تھے ، اس عرصے میں کبھی بھی میں نے اپنی بیوی سے کسی قسم کی کوئی زیادتی نہیں کی ، نہ کبھی کسی بات پر روک ٹوک کیا، نہ نان نفقہ پر ، نہ آنے جانے پر پابندی پر ، غرض کہ ہماری زندگی میں سب کچھ تھا سوائے اولاد کے جس کے لیے میں نے اپنا ٹیسٹ بھی کرویا جو مثبت ہے ،لیکن مارچ میں میری بیوی اپنے گھر رہنے گئے تو ان کے والدین نے اس پر بہت زیادہ دباؤ ڈالا کہ وہ مجھ سے الگ ہوجائے اور آخر کا ر میری بیوی نے کورٹ میں خلع کا کیس کردیا، جج نے مجھ سے پوچھا کہ آپ اپنی بیوی کو رکھنا چاہتے ہو تو میں نے کہا کہ جی ہاں اور میری بیوی نے کہا کہ میں نہیں رہنا چاہتی جس پر کورٹ نے کہا کہ ٹھیک ہے ، دوپہر بارہ بجے کے بعد سے آپ دونوں میاں بیوی نہیں ہیں۔ میرا سوال ہے کہ کیا اس طرح کورٹ سے دیا گیا خلع یا تنسیخ نکاح کا شرع میں کوئی مقام ہے ؟کیا میری بیوی اب بھی میرے نکاح میں ہے؟ براہ کرم، اس پر روشنی ڈالیں۔

    جواب نمبر: 42041

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1908-1473/B=11/1433 خلع میاں بیوی کے درمیان ہوتا ہے، اس میں کسی جج اور حاکم کی ضرورت نہیں، خلع یہ ہے کہ جب میاں بیوی میں نبھاؤ مشکل ہوجائے تو شوہر سے کہے کہ تم میرے مہر کے بدلہ میں گلوخلاصی کرو۔ یعنی طلاق دے کر مجھے علیحدہ کرو، اگر شوہر نے اسی مجلس میں طلاق دیدی تو یہ خلع ہوگا اور دونوں میں جدائیگی ہوجائے گی اس میں کسی حاکم کی ضرورت نہیں ہوتی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند