• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 39566

    عنوان: ساس بہو كے حقوق

    سوال: میری شادی کو دو سال ہو چکے ہیں اور میرے لحاظ سے میں نے اپنی ساس کی خوب خدمات کر لی ہے اب میں ماں بننا چاہتی ہوں، لیکن میری ساس چاہتی ہیں کہ اور وقفہ ہو، کیوں کہ ان کے لحاظ سے میں ابھی تک ان کے غیر کے طریقے نہیں سیکھ سکی ا اپنی ساس سے اب میری نہیں بن پا رہی، وہ میرے شوہر کو کہتی ہیں کہ اس کو طلاق دے دو، اس سے بچے مت پیدا کرو۔ میرا سوال یہ ہے کہ ہمارا دین کیا ساس کی خدمات کا حکم دیتا ہے یا ماں کی طرح عزت کرنیکا؟ کیوں کہ وہ مجھ سے ابھی اپنے رشتے داروں کی خدمات کروانا چاہتی ہیں، کیا ایک عورت کا کردار بہو کے حساب سے زیادہ اہم ہے یا بیوی کے لحاظ سا اور بیوی کے بعد کیا مجھے ایک ماں بن کر سوچنا چاہئے؟یا اپنی زندگی کو اپنی ساس کے نام پر وقف کردوں، آپ ہی بتائی کہ ان کا دل کیوں نرم نہیں ہو پا رہ، ا جب کہ میں ان ہی کی پسند ہوں، شرع میں وہ کہتی تھیں کہ ساس کی خدمات کرنا تمہارا فرض نہیں، صرف عزت کرنا ہے، تم صرف اپنے شوہر کے لییآئی ہو، میری خدمات کے لیے نہیں، لیکن اب سب کچھ کرنے پر بھی ان کو کم لگتا ہے، وہ بہت تلخ کلام بھی کرتی ہیں۔

    جواب نمبر: 39566

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1367-270/B=7/1433 لڑکے کی بیوی کے ذمہ صرف اپنے شوہر کی خدمت واجب ہے، ساس وسسر کی خدمت واجب نہیں، جو کچھ آپ نے اپنی ساس کی خدمت کی ہے یہ آپ کا تبرع اور احسان ہے، آپ شوہر سے کہیں کہ علیحدہ مکان لے کر مجھے رکھیں۔ شادی کے بعد ہی فوراً لڑکے کو الگ مکان لے کر بیوی کو رہنا چاہیے۔ علیحدہ رہنے سے ساس وسسر کو اپنی خدمت لینے کا جھگڑا ہی ختم ہوجائے گا۔ مسلمانوں میں ایسی جہالت آگئی ہے کہ ساس اور سسر اپنی بہو کو نوکرانی اور زرخرید باندی سمجھتے ہیں، اور ویسا ہی برتاوٴ رکھتے ہیں۔ نہ دین کا علم ہے نہ انسانیت وشرافت ہے۔ اللہ تعالی انھیں ہدایت دے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند