• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 36369

    عنوان: فون پر طلاق كے سلسلے میں

    سوال: میرا نام شمزہ ناز ہے۔ میرا نکاح سن ۲۰۰۷ اگست ۱۱ کو محمد علی کے ساتھ ہوا تھا کریمنگر حیدرآباد میں ،شادی کے چھ مہ بعد میں حمل سے تھی اور اس بچ ہمارے درمیان نا اتفاقیاں بڑھتی گئیں ، بے روز گار ہونے کی وجہ سے انہوں نے میری دوا اور علاج کا خرچہ میرے والدین کو کرنے لیے کہا۔ بات بے بات پر طلاق کی دھمکی دیتے ،ہاتھ اٹھاتے ، اسے پریشان ہو کر میں اپنی والدہ کے ساتھ ناگپور چلی آئی،فون پر بھی وہ بس جھگڑتے ہی رہتے .نومبر ، ۲۰۰۸ کو بچی کی پیدائش سے نا خوش میرے شوہر اور سسرال والوں نے کھڑی کھوٹی سنائی ۔بچی کے پیر میں تکلیف تھی جس کا علاج کروانا تھا، انہوں نے اس سے بھی انکار کیا اور بچی کو اپاہج کہہ کر اپنے شہر واپس لوٹ گئے ۔ جب بھی ان سے کرنا چاہا تو بات جھگڑوں کا رخ ہی لیتی ،اور انہوں نے ایک طلاق میسیج کے ذریعہ دیدی۔ پھر ایک ماہ بعد فون کے ذریعہ رجوع کیا ، اس کے بعد انہوں نے نہ میری اور نہ بچی کی خبر لی۔ 17 جون 2009کو انہوں نے فون پر کہا کہ ہماری طلاق ہوچکی ہے، تم کو ڈاک مل جائے گا۔ اس وقت انہونے اپنا فون نمبر اور گھر کا پتا بدل دیا ہے ،مجھے یہ جاننا ہے کہ ایسی حالت میں اپنا طلاق نامہ کہاں سے لے سکتی ہوں؟

    جواب نمبر: 36369

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ھ): 116=68-2/1433 فون پر اگر صرف یہی کہا تھا کہ ہماری طلاق ہوچکی ہے، تم کو ڈاک مل جائے گا اور مراد شوہر کی یہ ہوکہ جو ایک طلاق دیدی تھی اور پھر رجوع کرلیا تھا اس کو ڈاک سے ارسال کردوں گا، تب تو کسی طلاق نامہ کے حاصل کرنے کی ضرورت نہیں، آپ اس کی منکوحہ ہیں، باقی رہی یہ بات کہ اب اس کا پتہ نہیں کہ وہا کہاں ہے؟ تو اس کا حکم یہ ہے کہ آپ مقامی یا قریبی دارالقضاء یا محکمہٴ شرعیہ کی طرف رجوع کریں وہاں سے بعد تحقیق شرعی جو فیصلہ ہو اس کے مطابق عمل کریں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند