• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 31670

    عنوان: طلاق شدہ عورت اور شیر خوار بچی کے نان و نفقہ سے متعلق

    سوال: ایک لڑکی کی شادی کے دو سال بعد طلاق ہو گئی۔ انھیں ایک شیر خوار بچی بھی ہے۔ طلاق واقع ہونے کو لگ بھگ چار مہینے ہو چکے ہیں۔ طلاق کے بعد سے بچی مسلسل ماں کے پاس ہی ہے۔شو ہر کی آمدنی کافی اچھی ہیاور اس نے صر ف حق مہر ادا کیا ہے جبکہ بچی اور ماں کے دیگر اخراجات پورا ہونے کا ذریعہ طلاق شدہ لڑکی کے والدین ہی ہیں۔ ۔ قبلہ براہ مہر بانی یہ بتائیں کہ اس معاملے میں وہ شیر خوار بچی کے باپ پر، بچی اور اس کی ماں کے تعلق سے کیا کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں؟ (۲) بچی کی ماں پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں؟ (۳) اگر شوہر سے نان و نفقہ لینا ہو تو رقم کتنی ہوگی؟ (۴) بچی کب تک کس (ماں یا باپ )کے زیر سر پرست رہے گی؟ (۵) شوہر اپنی بچی سے کب کب مل سکے گا؟ (۶) اگر شوہر نان و نفقہ دینے سے انکار کردے تو کیا وہ گناہ گار ہوگا؟ اور اس صورت میں کیا اسے اس بات کا پابند بنایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی بچی سے مستقبل میں کبھی نہ ملے؟ محترم اسکے علاوہ بھی کچھ ضروری ہدایات ہوں تو براہ کرم ہماری رہنمائی فرمائیں۔عین نوازش ہوگی۔

    جواب نمبر: 31670

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(د): 903=120-5/1432 (۱) شیرخوار بچی کا نان ونفقہ یعنی خوراک، لباس و پوشاک، علاج ومعالجہ وغیرہ کے مصارف کی ذمہ داری بچی کے والد پر ہے، اور بیوی کا کوئی حق اب شوہر کے ذمہ نہیں۔ ونفقة الأولاد الصغار علی الأب لا یشارک فیہا أحد (ہدایہ: ۲/۴۲۳) (۲-۴) ماں کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ بچی کی پرورش اچھے طریقے سے کرے، اور اس کو اچھی تعلیم وتربیت دے، اور بچی گیارہ سال تک ماں کی پرورش میں رہے گی، اس کے بعد اسکا والد اس کو اپنی تربیت میں لے سکتا ہے، بشرطیکہ لڑکی کی ماں لڑکی کے غیرمحرم سے نکاح نہ کرے، اگر وہ لڑکی کے غیرمحرم سے نکاح کرے گی تو حق حضانت ساقط ہوجائے گا، پھر یہ حق نانی اور دادی کی طرف بالترتیب منتقل ہوجائے گا، ”والحضانة تثبت للأم النسبیّة․․․ إلا أن تکون مرتدة أو فاجرة․․․ أو متزوجة بغیر محرم الصغیر (درمختار مع الشامي: ۵/۲۵۳، زکریا) (۳) بچی کے نان ونفقہ کے لیے رقم بچی کے والد کی حیثیت اور عرف کے مطابق لی جائے۔ (۵) جس طرح لوگ شادی شدہ لڑکی سے گاہ بہ گاہ ملنے کے لیے جاتے ہیں اسی طرح یہ شخص بھی اپنی لڑکی سے گاہ بہ گاہ مل سکتا ہے، اور لڑکی بھی اپنے والد سے اسی طرح مل سکتی ہے۔ (۶) اگر وہ بچی کا نان ونفقہ دینے سے انکار کرتا ہے تو احکام شرع کی خلاف ورزی کی بنا پر گنہ گار ہوگا۔ لیکن اس کی وجہ سے اس کو بیٹی سے ملنے سے روکنا صحیح نہیں؛ کیوں کہ جس طرح اس کا بچی سے ملنے کا حق ہے، اسی طرح بچی کا بھی اپنے والد سے ملنے کا حق ہے، اس حق کو آپ سلب نہیں کرسکتے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند