• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 3077

    عنوان: اگر شوہر طلاق دیدے اور اس کا اقرار نہ کرے تو عورت کیا کرے؟

    سوال:

    میرے شوہر نے مختلف طریقے سے تین وقتوں میں طلا ق دی ہے۔ جولائی ۲۰۰۶ / کو میرے شوہر نے میرے حمل کے دوران فون پر طلاق دی، تین دن کے بعد ( سقو ط حمل کے ایک دن قبل) اس نے زبانی طور پر رجوع کرلیا، میں دوبارہ نومبر ۲۰۰۶/ کو حاملہ ہوگئی ، اپریل ۲۰۰۷/ کے اخیر میں پھر اس نے فون پر طلاق دی تھی جب کہ میں حمل سے تھی، اس کے الفاظ یہ تھے: ?اگر تم اپنی باجی سے ملی تو تو میں تم کو طلاق دیتاہوں?۔ اس مدت میں نے اس (باجی ) سے ایک مرتبہ یا دومرتبہ ملاقات کی تھی، اس طلا ق کے بعد وہ تین / چار مرتبہ آئے مگرحمل کی وجہ سے ہم نے ہمبستری نہیں کی ، لیکن زبانی طورپر کہا کہ میں تم سے محبت کرتاہوں اور تمہیں واپس چاہتاہوں۔ اس نے ۹/ سمتبر۲۰۰۷/ کو تیسری مرتبہ ان الفاظ سے طلاق دی:? میں تم کو طلاق دیتاہوں? ۔ ۹/ اگست ۲۰۰۷/ کو میر ی ایک بچی پیدا ہوئی تھی۔ تب سے وہ مجھ سے اپنے ساتھ رہنے کے لیے کہہ رہاہے، لیکن سوچ و فکر میں ہوں۔ طلاق دیتے وقت کوئی گواہ موجود نہیں تھا۔ براہ کرم، بتائیں کہ میری عدت کی مدت کب ختم ہوگی؟ واضح رہے کہ ۹/ اگست ۲۰۰۷/ کو بچی کی ولادت ہوئی تھی اور اکتوبر کو ماہواری آئی تھی۔

    سوال کا خلاصہ یہ ہے کہ جولائی ۲۰۰۶/کے اخیر میں فون پر طلاق پھر رجوع، اپریل ۲۰۰۷/کے اخیر میں دوبارہ مشروط طلاق، حمل کی وجہ سے کوئی رجوع نہیں ، ۹ ستمبر ۲۰۰۷/ کو پھر طلاق ، اب تک کوئی رجوع نہیں۔

    براہ کرم، بتائیں کہ کیا رجوع کا کوئی موقع ہے؟ چونکہ میں تین طلاق کے بعد عدت میں ہوں۔کیا مشروط طلاق سے بھی طلاق ہوجائے گی ؟ جیسے کہ اس نے باجی سے ملنے کی شرط لگائی تھی۔ رجوع کی وضاحت کریں۔ کیارجوع کے لیے جنسی تعلق ضروری ہے؟ یا صرف زبانی گفتگو کافی ہے؟

    جواب نمبر: 3077

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 220/ ب= 19/ تب

     

    شوہر نے پہلی بار جولائی 2006ء میں طلاق دی۔ پھر تین دن کے بعد رجعت کرلی۔ دوسری طلاق اپریل 2007ء کو حالت حمل میں دی۔ اس میں بھی شوہر نے -میں تم سے محبت کرتا ہوں اور تمھیں واپس چاہتا ہوں- کہہ کر رجعت کرلی۔ پھر تیسری مرتبہ 9/ ستمبر 2007ء کو طلاق دی تو اب کل تین طلاقیں واقع ہوئیں اور یہ دیانةً محض عورت کے کہنے کے مطابق واقع ہوئیں یعنی عورت اپنے شوہر کو اپنے اوپر قابو نہ دے۔ اور اگر شوہر طلاق کا اقراری نہیں ہے نہ ہی اس طلاق کے دو گواہ ہیں تو قضاءً طلاق کا حکم لاگو نہ ہوگا۔ والمرأة کالقاضی إذا سمعتہ أو أخبرہا عدل لا یحل لھا تمکینہ (شامی)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند