• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 30702

    عنوان: عرض یہ ہے کہ میری بیٹی کی شادی ٢٠٠٩ میں ایک برطانوی لڑکے کے ساتھکراچی میں ہوئی تھی. رخصتی کے بعد یہ جوڑا ایک ہوٹل میں رہا.لڑکے نے اسے ایک انگھوٹھی اور مہر کا چیک دیا اور لڑکی کے مطابق جب وہ لباس بدل کر کمرے میں ای تو لڑکا سو چکا تھا. اگلے ایک ہفتے میں یہی ہوتا رہا اور بلآخر لڑکا واپس لندن چلا گیا. اسکے بعد کاغذات مکمّل ہونے کے بعد لڑکی نے سپاؤس ویزا اپلائی کیا جو دہائی ماہ میں مل گیا اور لڑکی لندن چلی گئی. لڑکا لندن میں اپنی ماں اور ایک ذہنی پسماندہ بھائی کے ساتھ رہتا ہے. گھر میں بڑا کمرہ ماں کے پاس ہے اور چھوٹا کمرہ جس میں ایک ڈبل بیڈ بمشکل آتا ہے بہو کو دیا. لڑکی کے لندن پوھنچتے ہی ان لوگوں کا رویہ بدل گیا اور روز لڑکی کو طعنے سنا سنا کر پاگل پن کی حد کو پوھنچا دیا . وہاں کی ڈاکٹرنے بھی لکھا ہے کہ لڑکی سٹریس میں ہے. اگر چہ لڑکی نے وہاں جاتے ہی کھانا پکانا گھر کی صفائی اور دیگر گھریلو کام کاج کرنے شروع کر دیےتھے لیکن اسے کہا گیا کہ اپنے اخراجات کے لئے اپنے ماں باپ سے منگواؤ اور گھر پر تمہارا کوئی اختیار نہی ہوگا. اسکی یہ حالت دیکھ کر میں نے ایک مرتبہ اسکو ٢٠٠ ڈالرس اور دوبارہ ٢٠٠ پاؤنڈ بھیجے. جو بات سب سے زیادہ پریشانکن تھی کہ اس دوران ان دونوں کے بیچ کوئی رشتہ قائم نہی ہوا اور اس ہی طرح ٨ ماہ کا عرصھ گزر گیا. لڑکی سے بات کرنے کے بعد ہماری پریشانی میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا. چونکہ وہاں ہمارا کوئی عزیز نہی ہے اس لئے ہماری سمجھ میں یہہی آیا کہ ہم اسکو واپس بلا لیں وگرنہ اسکی صحت یا ذہنی حالت کو نقصان بھی پوھنچ سکتا ہے. چونکہ پاکستان میں چند شادیان بھی تھیں اس لئے لڑکی نے اپنے شوہر کو ٹکٹ کے لئے کہا لیکن اسنے تآل متول سے کم لینا شروع کر دیا. مجبورنآ ہم کو ہی ٹکٹ بھیج کر بلوانا پڑا. لڑکی کے ٨ ماہ قیام کے دوران اسکو روزمرّہ اخراجات کے لئے کوئی رقم نہی دی گئی صرف وہاں سے روانہ ہوتے وقت ستر (٧٠) پونڈ دیے حالانکہ لڑکی نے تین شادیوں میں شریک ہونا تھا. لندن قیام کے دوران لڑکی نے یہ بھی کہا کہ ہم دوسرے گھر میں رہ لیتے ہیں کیوں کہ لڑکے کا لندن میں ایک اور گھر بھی ہے جو کرایہ پر دیا ہوا ہے. لڑکی کا خیال تھا کہ شاید اس طرح حالات بہتر ہو جائیں لیکن یہ ماں اور بیٹے کو منظور نہی تھا. ساس روزانہ ٹیلیفون پر اپنی بہنوں کو پاکستان ٹیلیفون کر کے زور زور سے لڑکی کو برا بھلا کہتی لیکن جب لڑکی یہ بات اپنے شوہر کو بتاتی تو صاف مکر جاتی اور شوہر بھی بیوی پر ہی ناراض ہوتا. لندن سے پاکستان آنے کے بعد تقریبآ ایک ماہ بعد جب لڑکی کی حالت کچھ بہتر ہو گئی تواسنے ہمیں تمام صورتحال بتائی. دیگر عزیزوں سے مشوره کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ لڑکی کو واپس نہ بھیجا جاے. جب لڑکے کو اسکا معلوم ہوا تو اسنے لڑکی کو بوہت برا بھلا کہا اور بہت رکیک الزامات لگاے اور دو مختلف اوقات میں ای میل پر زیل کے الفاظ کہے : ١. تم نے رشتہ ختم کر دیا ہے اور اب یہ ختم ہو گیا ہے--- دفعہ ہو جاؤ ٢. تم اب ہمارے لئے کچھ نہی ہو خلا لو اور دفعہ ہو جاؤ میری بیٹی پچھلے چار ماہ سے میرے پاس ہے اور اس دوران لڑکے نے کوئی پیسا پآی نہی بھیجا بلکہ انکا جو مشترکہ سٹی بنک کا اکاونٹ تھا وہ بھی بند کر وا دیا ہے. عرض یہ ہے کہ لڑکے والوں نے جو زیورات لڑکی کو شادی کے وقت تحفتآ دیے تھے وہ لڑکی کے پاس ہیں اور لڑکے کا تقاضا یہ ہے کہ زیوارت اسے واپس کر دیے جائیں. شادی کے وقت جو نقد رقم لڑکی کو لڑکے والوں کی طرف سے ملی تھی اور جو رقم لندن میں ملی تھی وہ سب لڑکے کی ماں کے پاس ہے. سوال یہ ہے کہ اگر لڑکے اور اسکے رشتے داروں نے اسے زیور دیا تو ہم نے بھی لڑکے کو نقد رقم اور اسکے رشتے داروں کو اور اسکو قیمتی کپڑے دیے تھے اور مزید ایک لاکھ روپیہ لڑکی کو دیا جس سے اسکے لندن میں بیڈ روم کا سیٹ خریدا گیا علاوہ ازیں گزشتہ عید کو اور دیگر مواقی پر خاصی رقم خرچ کی. آپ قران اور سنّت کی روشنی میں بتایین کہ خلا لینے کے لئے کیا کرنا چاہیے. کون کون سی چیزیں واپس کرنی ہیں اور کیا وصول کرنا ہے. دیگر یہ کہ کیا مندرجہ بالا الفاظ جو ایمیل پر بھیجے گے کیا اس سے طلاق وآقه ہو گیی. اللہ آپ کو جزآے خیر دے

    سوال: جناب مفتی صاحب، اسسلام و علیکم و رحماتللہ و برکاتہ ، عرض یہ ہے کہ میری بیٹی کی شادی ٢٠٠٩ میں ایک برطانوی لڑکے کے ساتھکراچی میں ہوئی تھی. رخصتی کے بعد یہ جوڑا ایک ہوٹل میں رہا.لڑکے نے اسے ایک انگھوٹھی اور مہر کا چیک دیا اور لڑکی کے مطابق جب وہ لباس بدل کر کمرے میں ای تو لڑکا سو چکا تھا. اگلے ایک ہفتے میں یہی ہوتا رہا اور بلآخر لڑکا واپس لندن چلا گیا. اسکے بعد کاغذات مکمّل ہونے کے بعد لڑکی نے سپاؤس ویزا اپلائی کیا جو دہائی ماہ میں مل گیا اور لڑکی لندن چلی گئی. لڑکا لندن میں اپنی ماں اور ایک ذہنی پسماندہ بھائی کے ساتھ رہتا ہے. گھر میں بڑا کمرہ ماں کے پاس ہے اور چھوٹا کمرہ جس میں ایک ڈبل بیڈ بمشکل آتا ہے بہو کو دیا. لڑکی کے لندن پوھنچتے ہی ان لوگوں کا رویہ بدل گیا اور روز لڑکی کو طعنے سنا سنا کر پاگل پن کی حد کو پوھنچا دیا . وہاں کی ڈاکٹرنے بھی لکھا ہے کہ لڑکی سٹریس میں ہے. اگر چہ لڑکی نے وہاں جاتے ہی کھانا پکانا گھر کی صفائی اور دیگر گھریلو کام کاج کرنے شروع کر دیےتھے لیکن اسے کہا گیا کہ اپنے اخراجات کے لئے اپنے ماں باپ سے منگواؤ اور گھر پر تمہارا کوئی اختیار نہی ہوگا. اسکی یہ حالت دیکھ کر میں نے ایک مرتبہ اسکو ٢٠٠ ڈالرس اور دوبارہ ٢٠٠ پاؤنڈ بھیجے. جو بات سب سے زیادہ پریشانکن تھی کہ اس دوران ان دونوں کے بیچ کوئی رشتہ قائم نہی ہوا اور اس ہی طرح ٨ ماہ کا عرصھ گزر گیا. لڑکی سے بات کرنے کے بعد ہماری پریشانی میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا. چونکہ وہاں ہمارا کوئی عزیز نہی ہے اس لئے ہماری سمجھ میں یہہی آیا کہ ہم اسکو واپس بلا لیں وگرنہ اسکی صحت یا ذہنی حالت کو نقصان بھی پوھنچ سکتا ہے. چونکہ پاکستان میں چند شادیان بھی تھیں اس لئے لڑکی نے اپنے شوہر کو ٹکٹ کے لئے کہا لیکن اسنے تآل متول سے کم لینا شروع کر دیا. مجبورنآ ہم کو ہی ٹکٹ بھیج کر بلوانا پڑا. لڑکی کے ٨ ماہ قیام کے دوران اسکو روزمرّہ اخراجات کے لئے کوئی رقم نہی دی گئی صرف وہاں سے روانہ ہوتے وقت ستر (٧٠) پونڈ دیے حالانکہ لڑکی نے تین شادیوں میں شریک ہونا تھا. لندن قیام کے دوران لڑکی نے یہ بھی کہا کہ ہم دوسرے گھر میں رہ لیتے ہیں کیوں کہ لڑکے کا لندن میں ایک اور گھر بھی ہے جو کرایہ پر دیا ہوا ہے. لڑکی کا خیال تھا کہ شاید اس طرح حالات بہتر ہو جائیں لیکن یہ ماں اور بیٹے کو منظور نہی تھا. ساس روزانہ ٹیلیفون پر اپنی بہنوں کو پاکستان ٹیلیفون کر کے زور زور سے لڑکی کو برا بھلا کہتی لیکن جب لڑکی یہ بات اپنے شوہر کو بتاتی تو صاف مکر جاتی اور شوہر بھی بیوی پر ہی ناراض ہوتا. لندن سے پاکستان آنے کے بعد تقریبآ ایک ماہ بعد جب لڑکی کی حالت کچھ بہتر ہو گئی تواسنے ہمیں تمام صورتحال بتائی. دیگر عزیزوں سے مشوره کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ لڑکی کو واپس نہ بھیجا جاے. جب لڑکے کو اسکا معلوم ہوا تو اسنے لڑکی کو بوہت برا بھلا کہا اور بہت رکیک الزامات لگاے اور دو مختلف اوقات میں ای میل پر زیل کے الفاظ کہے : ١. تم نے رشتہ ختم کر دیا ہے اور اب یہ ختم ہو گیا ہے--- دفعہ ہو جاؤ ٢. تم اب ہمارے لئے کچھ نہی ہو خلا لو اور دفعہ ہو جاؤ میری بیٹی پچھلے چار ماہ سے میرے پاس ہے اور اس دوران لڑکے نے کوئی پیسا پآی نہی بھیجا بلکہ انکا جو مشترکہ سٹی بنک کا اکاونٹ تھا وہ بھی بند کر وا دیا ہے. عرض یہ ہے کہ لڑکے والوں نے جو زیورات لڑکی کو شادی کے وقت تحفتآ دیے تھے وہ لڑکی کے پاس ہیں اور لڑکے کا تقاضا یہ ہے کہ زیوارت اسے واپس کر دیے جائیں. شادی کے وقت جو نقد رقم لڑکی کو لڑکے والوں کی طرف سے ملی تھی اور جو رقم لندن میں ملی تھی وہ سب لڑکے کی ماں کے پاس ہے. سوال یہ ہے کہ اگر لڑکے اور اسکے رشتے داروں نے اسے زیور دیا تو ہم نے بھی لڑکے کو نقد رقم اور اسکے رشتے داروں کو اور اسکو قیمتی کپڑے دیے تھے اور مزید ایک لاکھ روپیہ لڑکی کو دیا جس سے اسکے لندن میں بیڈ روم کا سیٹ خریدا گیا علاوہ ازیں گزشتہ عید کو اور دیگر مواقی پر خاصی رقم خرچ کی. آپ قران اور سنّت کی روشنی میں بتایین کہ خلا لینے کے لئے کیا کرنا چاہیے. کون کون سی چیزیں واپس کرنی ہیں اور کیا وصول کرنا ہے. دیگر یہ کہ کیا مندرجہ بالا الفاظ جو ایمیل پر بھیجے گے کیا اس سے طلاق وآقه ہو گیی. اللہ آپ کو جزآے خیر دے واسسلام خیر اندیش نظر

    جواب نمبر: 30702

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ھ):616=213-3/1432

    کوئی لفظ صاف طلاق دینے پر مشتمل ہو، شوہر نے نہیں بولا اور جو الفاظ کنایہ کے قبیل سے بولے ان میں قرائن قویہ سے نیت طلاق کا نہ ہونا ہی ظاہر ہے، البتہ اتنا ثابت ہے کہ وہ خلع کرنے پر آمادہ ہے، اس کی بہتر صورت یہ ہے کہ اپنے تمام مالی معاملات کو پہلے صاف کرلیں، اسکے بعد مہر کے بدلہ میں خلع کی تکمیل کرالیں، تاکہ آپ کی بیٹی کو اس سے چھٹکارہ مل جائے، اس کے لیے عمدہ صورت یہ ہے کہ باہم متفق ہوکر دوچار بااثر اور ایک دو علمائے کرام کو بیچ میں ڈال کر سب معاملات اور نزاع کو نبٹالیں، خلع اور عدت گذرجانے کے بعد کہیں مناسب جگہ نکاح کی سہولت حاصل ہوجائے۔ 


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند