• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 28371

    عنوان: میرے ایک دوست نے غصہ میں اپنی بیوی کو کہا کہ جاؤ ، تم میری طرف سے فارغ یا آزاد ہو مگر اس کو گھر سے نہیں نکالااور اس کے ساتھ ہی رہ رہی ہے، اور اسی رات یا دو تین دنوں کے بعد اس نے ہمبستری کی اور دونوں اکٹھے رہ رہے ہیں۔ اب اس بات کو آٹھ نو سال ہوگئے ہیں، اس کے بعد اس کے دوبچے بھی ہوگئے ہیں۔ 
    سوال یہ ہے کہ کیا اس کی بیوی اس پر ابھی تک حلال ہے ؟ کیوں کہ اس نے جب یہ بات کہی تواس ارادہ طلاق کا نہیں تھا، صرف غصہ میں کہہ دی تھی، اور اس کے بعد بھی تین سال کے بعد اس نے یہ یہی بات غصہ میں کہی ، اس وقت بھی اس کا ارادہ طلاق کانہیں تھا گمر بیوی کو الگ نہ کیا اور ہمبستری کرتارہا۔ (۲) یہ ہے کہ رجوع کیا مطلب ہے ؟ مجھے سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔ براہ کرم، جواب دیں۔ 

    سوال: میرے ایک دوست نے غصہ میں اپنی بیوی کو کہا کہ جاؤ ، تم میری طرف سے فارغ یا آزاد ہو مگر اس کو گھر سے نہیں نکالااور اس کے ساتھ ہی رہ رہی ہے، اور اسی رات یا دو تین دنوں کے بعد اس نے ہمبستری کی اور دونوں اکٹھے رہ رہے ہیں۔ اب اس بات کو آٹھ نو سال ہوگئے ہیں، اس کے بعد اس کے دوبچے بھی ہوگئے ہیں۔ 
    سوال یہ ہے کہ کیا اس کی بیوی اس پر ابھی تک حلال ہے ؟ کیوں کہ اس نے جب یہ بات کہی تواس ارادہ طلاق کا نہیں تھا، صرف غصہ میں کہہ دی تھی، اور اس کے بعد بھی تین سال کے بعد اس نے یہ یہی بات غصہ میں کہی ، اس وقت بھی اس کا ارادہ طلاق کانہیں تھا گمر بیوی کو الگ نہ کیا اور ہمبستری کرتارہا۔ (۲) یہ ہے کہ رجوع کیا مطلب ہے ؟ مجھے سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔ براہ کرم، جواب دیں۔ 

    جواب نمبر: 28371

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ب): 96=134-1/1432

    صورتِ مسئولہ میں جب شوہر نے ”تم میری طرف سے فارغ ہو“ کہا اور اس کا ارادہ طلاق کا نہیں تھا تو طلاق واقع نہیں ہوئی؛ کیونکہ یہ الفاظ کنائی میں سے ہے اورالفاظ کنائی سے بغیر نیت کے طلاق نہیں پڑتی۔ ”تم میری طرف سے آزاد ہو“ ہمارے عرف میں بمنزلہ صریح ہے، صریح الفاظ سے طلاق دینے میں نیت کا اعتبار نہیں ہوتا، بلانیت بھی صریح الفاظ کا تلفظ کرے تو طلاق واقع ہوجاتی ہے: سرّحتکِ کنایة لکنہ في عرف الفرس غلب استعمالہ فی الصریح (شامی باب الکنایات)
    اور صریح الفاظ سے ایک یا دو مرتہ طلاق دینے کے بعد شوہر کے لیے عدت کے اندر رجعت کرنا جائز رہتا ہے۔لہٰذا شوہر نے پہل مرتبہ ”تم میری طرف سے آزاد ہو“ کہا، تو ایک طلاق رجعی پڑگئی، پھر اس نے ایک یا دو دن کے بعد ہمبستری کرلی تو رجعت ہوگئی، پھر جب اس نے دوسری مرتبہ کہا تو اس سے دوسری طلاق رجعی پڑگئی، پھر جب اس نے اس کے بعد ہمبستری کی تو دوسری مرتبہ بھی رجعت ہوگئی، اب وہ ایک دوسرے کے لیے حلال ہیں، شوہر کے لیے بیوی کو رکھنا جائز اور درست ہے۔
    البتہ اب وہ ایک ہی طلاق کا مالک ہوگا، اگر اس نے آئندہ یہی لفظ یا دوسرے الفاظ جس سے طلاق پڑجاتی ہو کہا تو اس کی بیوی مغلظہ بائنہ ہوکر اس پر حرام ہوجائے گی، پھر بغیر حلالہ شرعی کے اس کو رکھنا جائز نہ ہوگا۔
    (۲) رجعت کا مطلب: اگر کسی شخص نے اپنی منکوحہ کو صریح لفظ سے یا ایک دو طلاق دیدی تو اس کی بنا پر زوجین کے درمیان ایک اجنبیت واقع ہوجاتی ہے، شریعت نے عدت کے اندر اندر اس اجنبیت کو ختم کرنے اور نکاح کو سابقہ حالت پر لوٹانے کی اجازت دی ہے۔
    حاصل یہ ہے کہ شوہر کا عدت کے اندر اندر اپنی بیوی کو اپنے نکاح میں واپس کرلینا رجعت کہلاتا ہے، رجعت فعل کے ذریعہ بھی ہوسکتی ہے اور قول کے ذریعہ بھی، فعل کے ذریعہ تو یہ ہے کہ ”بیوی سے ہمبستری کرلے، یا شہوت کے ساتھ بوسہ لے لے وغیرہ، اور رجعت بذریعہ قول یہ ہے کہ ”دو گواہوں کے سامنے یہ کہے کہ میں نے اپنی بیوی کو طلاق دیا تھا، آپ لوگ گواہ رہیں میں اس سے رجوع کرتا ہوں، اور بیوی کو بھی اس کی اطلاع دیدے، اگر گواہ نہ بنائے صرف یہ کہہ دے کہ میں رجعت کرتا ہوں تو بھی رجعت ہوجائے گی، رجعت قول کے ذریعہ کرنا اولیٰ بہتر اور پسندیدہ ہے الرجعة إبقاء النکاح علی ما کان مادامت في العدة (ہندیة: ۱/۵۰۲، باب الرجعة، بیروت)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند