• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 26907

    عنوان: ”آزاد کردی“ یا ”میری طرف سے آزاد ہو سے “ طلاق

    سوال: 2004/ میں پاکستان میں تھا، بیوی کے ساتھ مجھے کچھ پریشانیاں تھیں، اس لیے قیام کے آخری دن میں نے اس سے کہا کہ تمہیں جو بھی مسائل درپیش ہوں انہیں میری موجودگی میں حل کرلو، لیکن اس نے کہا کہ میں نے جوبھی کیاوہی تمہارے عدم موجودگی میں بھی کروں گی۔ میں نے اس سے کہاکہ اگر میری موجودگی میں کوئی کام کروگی تو میں تم کو آزاد کردوں گا(میری طرف سے آزاد ہو)، میں نے لفظ طلاق استعمال نہیں کیا اور نہ ہی طلاق دینے کا میرا ارادہ تھا۔ جب اسی دن میں پاکستان سے روانہ ہوگیا تو اس نے میرے گھروالوں کے لیے ایک بڑی پریشانی پیدا کردی اور میری جانکاری کے بغیر وہ میرے گھر سے چلی گئی۔ میں جاننا چاہتاہوں کہ کیا مذکورہ الفاظ سے طلاق ہوگئی؟پانچ برسوں سے اس سے میری ملاقات اور بات چیت نہیں ہوئی ہے۔ براہ کرم، اس سلسلے میں میری رہنمائی فرمائیں۔

    جواب نمبر: 26907

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ل): 1695=1222-11/1431

    ”آزاد کردی“ یا ”میری طرف سے آزاد ہو“ طلاق کے باب میں صریح ہے اور صریح الفاظ کے تلفظ کے وقت نیت کی ضرورت نہیں پڑتی بغیر نیت کے ہی طلاق واقع ہوجاتی ہے، اس لیے صورت مسئولہ میں آپ کی بیوی پر ایک طلاق واقع ہوگئی اور اگر آپ نے رجوع بھی نہیں کیا تھا کہ آپ کی بیوی کو تین حیض آگئے تو اس کی عدت بھی پوری ہوگئی، اب وہ آزاد ہے جہاں چاہے اپنا عقد ثانی کرسکتی ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند