معاشرت >> طلاق و خلع
سوال نمبر: 25600
جواب نمبر: 25600
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ب): 1756=1387-10/1431
صورت مذکورہ میں اگر آپ نے بیوی کے ساتھ تحریری طور پر طلاق لکھی ہے اور زبان سے کچھ نہیں کہا ہے تو اس سے کوئی طلاق واقع نہ ہوئی، بیوی کے سامنے ہونے کی صورت میں آپ کے لیے زبانی طلاق دینا تھا۔ مخاطب سامنے ہے تو اسے خطاب کرکے زبان سے بولنا چاہیے، اصل یہی ہے۔ ایسی حالت میں کتابت کی کوئی حاجت نہیں، کتابت تو نطق کے قائم مقام ہے۔ سامنے ہونے کی صورت میں اصل سے کام لینا چاہیے، یعنی زبان سے بولنا چاہیے، یہاں قائم مقام کو اختیار کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس لیے کوئی طلاق واقع نہ ہوئی کما قال الشامي ناقلاً عن البحر فلو أکرہ علی أن یکتب طلاق امرأتہ فکتب لا تطلق لأن الکتابة أقیمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة ہنا․ کذا في الخانیة (شامي: ۲/۴۲۱، مجتبائی)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند