• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 25600

    عنوان: میری شادی ایک عیسائی لڑکی سے ہوئی ہے۔ ایک دن ہمارے درمیان جھگڑاہوا اور اس نے طلاق لکھنے کا مطالبہ کیا، میں نے کاغذ میں اس کی زبان میں تین مرتبہ لکھا کہ میں تم کو طلاق دے رہا ہوں۔ اسی وقت اس نے وہ کاغذ پڑھا۔ پھر میں نے اس کاغذ کو پھاڑ دیااور اس سے کہا کہ میں تم کو طلا نہیں دے رہاہوں اورپھر سے ہم ایک ساتھ رہ رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا طلاق ہوگئی؟ براہ کرم، ہماری رہنمائی فرمائیں۔ 

    سوال: میری شادی ایک عیسائی لڑکی سے ہوئی ہے۔ ایک دن ہمارے درمیان جھگڑاہوا اور اس نے طلاق لکھنے کا مطالبہ کیا، میں نے کاغذ میں اس کی زبان میں تین مرتبہ لکھا کہ میں تم کو طلاق دے رہا ہوں۔ اسی وقت اس نے وہ کاغذ پڑھا۔ پھر میں نے اس کاغذ کو پھاڑ دیااور اس سے کہا کہ میں تم کو طلا نہیں دے رہاہوں اورپھر سے ہم ایک ساتھ رہ رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا طلاق ہوگئی؟ براہ کرم، ہماری رہنمائی فرمائیں۔ 

    جواب نمبر: 25600

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ب): 1756=1387-10/1431

    صورت مذکورہ میں اگر آپ نے بیوی کے ساتھ تحریری طور پر طلاق لکھی ہے اور زبان سے کچھ نہیں کہا ہے تو اس سے کوئی طلاق واقع نہ ہوئی، بیوی کے سامنے ہونے کی صورت میں آپ کے لیے زبانی طلاق دینا تھا۔ مخاطب سامنے ہے تو اسے خطاب کرکے زبان سے بولنا چاہیے، اصل یہی ہے۔ ایسی حالت میں کتابت کی کوئی حاجت نہیں، کتابت تو نطق کے قائم مقام ہے۔ سامنے ہونے کی صورت میں اصل سے کام لینا چاہیے، یعنی زبان سے بولنا چاہیے، یہاں قائم مقام کو اختیار کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس لیے کوئی طلاق واقع نہ ہوئی کما قال الشامي ناقلاً عن البحر فلو أکرہ علی أن یکتب طلاق امرأتہ فکتب لا تطلق لأن الکتابة أقیمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة ہنا․ کذا في الخانیة (شامي: ۲/۴۲۱، مجتبائی)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند