• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 19962

    عنوان:

    اگر ایک شخص کہے کہ اگر میری بیوی اپنے بہن کے گھر گئی تو میری طرف سے طلاق ہے۔ یہ الفاظ اس وقت کے ہیں جب بیوی کی بہن کی شادی نہیں ہوئی تھی اور جس جگہ اس کا بیاہ ہورہا تھا اس پر یہ شخص ناراض تھا اور اس گھر سے مراد سالی کا سسرال تھا، اب جب لڑکی کی شادی ہوچکی ہے وہ شخص اپنے الفاظ پر پشیمان ہے اور چاہتا ہے کہ اس کی بیوی اپنے بہن کے گھر جائے۔ برائے مہربانی بتادیں کہ اس صورت میں اس کی بیوی اگر بہن کے گھر جاتی ہے تو طلاق واقع ہوجاتی ہے کہ نہیں؟ اور کونسی قسم کی طلاق ہوگی اور چانے سے صرف ایک مرتبہ طلاق واقع ہوجائے گی یا ہربار جانے سے الگ الگ طلاق واقع ہوگی۔ اگر اس صورت حال کا کوئی شرعی حل ہو تو مہربانی فرماکر ہدایت فرمادیں تاکہ وہ عورت اپنے بہن کے گھر جاسکے۔

    سوال:

    اگر ایک شخص کہے کہ اگر میری بیوی اپنے بہن کے گھر گئی تو میری طرف سے طلاق ہے۔ یہ الفاظ اس وقت کے ہیں جب بیوی کی بہن کی شادی نہیں ہوئی تھی اور جس جگہ اس کا بیاہ ہورہا تھا اس پر یہ شخص ناراض تھا اور اس گھر سے مراد سالی کا سسرال تھا، اب جب لڑکی کی شادی ہوچکی ہے وہ شخص اپنے الفاظ پر پشیمان ہے اور چاہتا ہے کہ اس کی بیوی اپنے بہن کے گھر جائے۔ برائے مہربانی بتادیں کہ اس صورت میں اس کی بیوی اگر بہن کے گھر جاتی ہے تو طلاق واقع ہوجاتی ہے کہ نہیں؟ اور کونسی قسم کی طلاق ہوگی اور چانے سے صرف ایک مرتبہ طلاق واقع ہوجائے گی یا ہربار جانے سے الگ الگ طلاق واقع ہوگی۔ اگر اس صورت حال کا کوئی شرعی حل ہو تو مہربانی فرماکر ہدایت فرمادیں تاکہ وہ عورت اپنے بہن کے گھر جاسکے۔

    جواب نمبر: 19962

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ھ): 375=312-3/1431

     

    تعلیق درست ہوگئی، اب بیوی جب اپنی بہن کے سسرال والے گھر جائے گی تو مطابق شرط ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی اور اس کے بعد جانے سے کوئی طلاق واقع نہ ہوگی (بشرطیکہ تعلیق کے بعینہ وہی الفاظ ہوں کہ جو استفتاء میں لکھے ہیں) اگر شوہر چاہتا ہے کہ حسب تعلق طلاق واقع نہ ہو تو اس کی صورت یہ ہے کہ بیوی کو پابند کردے کہ اپنی بہن کی سسرال نہ جائے بلکہ بہن خود اُس (بیوی) سے آکر جب ضرورت سمجھے اپنے شوہر یا والد کی اجازت سے آکر مل جایا کرے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند