معاشرت >> طلاق و خلع
سوال نمبر: 18310
دسمبر
2006میں نکاح ہوا، شادی کے چار مہینہ کے بعد علیحدگی ہوگئی۔ میں طلاق چاہتا تھا
(دوبارہ صلح کی کوشش کی گئی لیکن کامیاب نہ ہوسکی)۔ آمنے سامنے طلاق ، لیکن کوئی
گواہ نہیں۔ وہ اپنے گھر اپنی فیملی کے ساتھ رہتی ہے، اور نوکری کررہی ہے۔ میں
دوسرے شہر چلا گیا۔ علیحدگی کے ایک سال کے بعد اور تصفیہ کی ناکامی کے بعد میں نے
تحریری طلاق کا راستہ اختیار کیا، اور تین تحریر ی طلاق نامہ بھیجا ہر طلاق کے خط
کے درمیان ایک مہینہ کے وقفہ کے ساتھ اور اس کی کاپی قاضی اور دوسرے دو گواہوں کے
پاس بھی بھیجی۔قاضی اور دوسرے گواہوں کو تینوں خطوط موصول ہوئے۔ طلاق نامہ کی پہلی
کاپی میری سابقہ بیوی کو موصول ہوئی۔ لیکن اس نے بقیہ دو خطوط کو ڈاکیہ کے ذریعہ
سے وصول کرنے اور اس پر دستخط کرنے سے انکار کردیا۔میری سابقہ بیوی نے کوئی بھی
مالی دعوی نہیں کیانیز مہر بھی قبول کرنے سے منع کردیا۔ قاضی نے ایک سال تک مسلسل
اس سے درخواست کی کہ وہ اپنے حقوق کے لیے دعوی کرے لیکن ...
دسمبر
2006میں نکاح ہوا، شادی کے چار مہینہ کے بعد علیحدگی ہوگئی۔ میں طلاق چاہتا تھا
(دوبارہ صلح کی کوشش کی گئی لیکن کامیاب نہ ہوسکی)۔ آمنے سامنے طلاق ، لیکن کوئی
گواہ نہیں۔ وہ اپنے گھر اپنی فیملی کے ساتھ رہتی ہے، اور نوکری کررہی ہے۔ میں
دوسرے شہر چلا گیا۔ علیحدگی کے ایک سال کے بعد اور تصفیہ کی ناکامی کے بعد میں نے
تحریری طلاق کا راستہ اختیار کیا، اور تین تحریر ی طلاق نامہ بھیجا ہر طلاق کے خط
کے درمیان ایک مہینہ کے وقفہ کے ساتھ اور اس کی کاپی قاضی اور دوسرے دو گواہوں کے
پاس بھی بھیجی۔قاضی اور دوسرے گواہوں کو تینوں خطوط موصول ہوئے۔ طلاق نامہ کی پہلی
کاپی میری سابقہ بیوی کو موصول ہوئی۔ لیکن اس نے بقیہ دو خطوط کو ڈاکیہ کے ذریعہ
سے وصول کرنے اور اس پر دستخط کرنے سے انکار کردیا۔میری سابقہ بیوی نے کوئی بھی
مالی دعوی نہیں کیانیز مہر بھی قبول کرنے سے منع کردیا۔ قاضی نے ایک سال تک مسلسل
اس سے درخواست کی کہ وہ اپنے حقوق کے لیے دعوی کرے لیکن اس نے کوئی بھی دعوی نہیں
کیا۔ جو رقم میں نے بطور دین مہر کے اور عدت کے وقفہ کے لیے اس نے اس کو قبول کرنے
سے انکار کردیا۔ اب علیحدگی کو تقریباً تین سال ہوچکے ہیں اور طلاق سے دو سال گزر
چکے ہیں (ہمارے کوئی اولاد نہیں ہے)۔ وہ اپنی فیملی ممبر کے ساتھ رہتی ہے۔میرے پاس
اس کے مالی دعوی کرنے سے انکار کرنے کا کوئی تحریری ثبوت نہیں ہے اور نہ ہی کوئی
تحریری ثبوت مہر کو قبول نہ کرنے کا۔ اور جو رقم میں نے اس کو پیش کیا اس کو قبول
نہ کرنے کا کوئی تحریری ثبوت نہیں ہے۔ قاضی صاحب نے اس معاملہ کو ختم کردیا اور یہ
معاملہ بند ہوچکا ہے، لیکن اس کے گھر والے میرے خلاف جھوٹے الزامات پھیلارہے ہیں
کہ میں نے اس کو طلاق نہیں دیا ہے (کیوں کہ اس نے طلاق کو قبول نہیں کیا)اور یہ کہ
میں نے اس کی مالی اعتبار سے دیکھ ریکھ نہیں کی ہے۔ وہ لوگ یہ پروپیگنڈہ پھیلا رہے
ہیں کہ جب بھی وہ چاہیں مجھ کو کورٹ لے جاسکتے ہیں۔چونکہ اس وقت میں کام نہیں
کررہا ہوں ، اس لیے وہ انتظار کررہے ہیں کہ میری مالی حالت اچھی ہوجائے تووہ لوگ
میرے خلاف چارج داخل کریں۔
میرا سوال یہ ہے کہ:اگر بیوی قبول کرنے سے انکار
کرتی ہے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ طلاق نہیں ہے؟ اگر بیوی دین مہر اور عدت کے
وقت کی رقم کو قبول کرنے سے انکار کرتی ہے تو کیا طلاق پوری نہیں ہوگی؟ کیا طلاق
(مسلم قاضی کے تحت) کورٹ میں قانونی اعتبار سے معتبر ہے؟ کیا کوئی مسلمان عورت
طلاق کو قبول کر نے سے انکار کرسکتی ہے؟ کیا وہ یا اس کے گھر والے بعد میں دعوی
کرسکتے ہیں کہ میں نے اس کو چھوڑ دیا ہے۔ میں اپنے آپ کو ان کے منصوبہ سے بچانے کے
لیے کیا کرسکتا ہوں؟میں نے اس عورت کی فطرت کی وجہ سے اس شادی کی وجہ سے ذہنی
ٹارچر اور ذہنی کرب جھیلے ہیں۔ میں اس سے ملاقات کرنے سے پہلے مرنا چاہتا ہوں۔اور
جو اضطراب اس نے اور اس کے گھر والوں نے میرے لیے پیدا کیا میں چاہتاہوں کہ وہ لوگ
نہ جانیں کہ میں کہا ں ہوں۔ اگر میں کسی او رشہر میں چلا جاتا ہوں تو کیا وہ رپورٹ
کرسکتے ہیں کہ میں بچ رہا ہوں یا غائب ہورہا ہوں؟کیا وہ بعد میں نان و نفقہ کا
دعوی کرسکتی ہے؟ میں اس سے کیسے بچوں؟ میرے طلاق کا قانونی درجہ کیا ہوگا؟ کیا کسی
مسلم قاضی کے ذریعہ سے جاری شدہ طلاق کے کاغذ کو قانونی کرنے کا کوئی طریقہ ہے؟
کیا مجھ کوہمیشہ خوف میں رہنا ہوگا اور ہمیشہ اس خطرہ میں کہ مجھ کو کبھی بھی متہم
کیا جاسکتا ہے؟ برائے کرم اپنی قیمتی معلومات اور فتوی کے ذریعہ سے میری اسلامی
قانون کے مطابق اور قانونی رہنمائی کے ذریعہ سے مدد کریں۔
جواب نمبر: 18310
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(د): 108=3k-2/1431
آپ نے سوال کے ساتھ طلاق نامہ کی فوٹو کاپی نہیں لگائی۔ پھربھی اگر آپ تحریری طور پر اپنی بیوی کو تین طلاق دے چکے ہیں، تو اس پر تینوں طلاق واقع ہوگئیں بشرطیکہ آپ نے طلاقنامہ میں یہ نہ لکھا ہو کہ [جب میرا طلاق نامہ تمھیں پہنچے اور تم پڑھ لو تو تمھیں طلاق] بلکہ اس قسم کی شرط کے بغیر آپ نے طلاق خود لکھی یا کسی سے لکھواکر بھیجی ہو تو طلاق لکھنے کے وقت ہی سے واقع ہوگئی، عورت کے علم میں آنا یا اس کا تسلیم کرنا وقوع طلاق کے لیے ضروری نہیں، بلکہ اگر عورت انکار کرے تو بھی طلاق پڑگئی، لہٰذا آپ دونوں کا رشتہ نکاح ختم ہوگیا۔ عورت کو عدت پوری کرنے کے بعد آپ کے علاوہ کسی بھی دوسرے مرد سے نکاح کرنے کا اختیار حاصل ہوگیا اور آپ کے ذمہ اس کا مہر نیز عدت کے زمانہ کا خرچ واجب تھا، اگر آپ کی جانب سے دیئے جانے کے باوجود اس نے لینے سے انکار کیا تو جب کہ آپ کے پاس اس کے گواہ نہیں ہیں وہ دوبارہ مطالبہ کرسکتی ہے، اور آپ کو ادا کرنا ہوگا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند