• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 177995

    عنوان: دینی مسایل کو بکواس کہنا

    سوال: بیوی سےبات چیت کر رہا تھا کہ اپنی بہنوں اور اپنی دوستوں سے مجھے دور رکھنا اور تمام عورتوں سے کبھی مجھے دوسری شادی کا نہ کہنا اور ساتھ ہی طلاق کا لفظ میرے منہ سے غلطی سے نکلا طلاق دینے کی نیت میری نہ تھی بلکہ کچھ اور کہنا چاہتا تھا کیونکہ بیوی مجھے بتا رہی تھی کہ اس نے طلاق کے مسائل اسلامیات کی کتاب میں پڑھے ہیں میں نے کہا کیا بکواس پڑھا ہے اسلامیات کی کتاب میں مجھ یہ لفظ سن کر پریشانی شروع ہو جاتی ہے اور مجھے ڈر لگتا ہے کہ یہ لفظ منہ سے نکل نہ جائے اللہ کی قسم یہ لفظ بغیر سوچے سمجھے منہ سے نکلا کیونکہ میں شادی کے بعد یہ فضول باتیں سوچتا رہتا ہوں کہ کہیں میری بیوی مجھ سے الگ نہ ہو جائے۔ بیوی سے اس معاملے کے متعلق پوچھا بیوی کا بیان ہے اس نے میری بات غور سے نہیں سنی میں ہلکی آواز میں بات کر رہا تھا اور اس کا دھیان بھی نہیں تھا بات کی طرف خیر مجھے غالب گمان ہے کہ لفظ نکلا ہے برائے مہربانی جواب جلد دیں تاکہ پریشانی کم ہو۔

    جواب نمبر: 177995

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 779-698/M=08/1441

    دینی مسایل کو بکواس کہنا نہایت سخت جملہ ہے، ایسی بات ہرگز نہ کہنی چاہئے، اس سے توبہ کیجئے اور مقامی کسی مستند مفتی صاحب سے مل کر صورت حال بتائیے کہ ہمارے منھ سے ایسا جملہ نکلا ہے؟ طلاق کے متعلق بھی پورے الفاظ نقل کرکے بتائیے کہ ہمارے منھ سے یہ لفظ غلطی سے نکلا ہے، مفتی صاحب تحقیق فرمالیں گے کہ کتنی بار کہا ہے اور کس پس منظر میں کہا ہے اور صحیح نوعیت کیا ہے، اور بکواس والے جملے کے متعلق بھی تحقیق فرماکر حکم شرعی سے آگاہ فرمادیں گے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند