• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 177871

    عنوان: ماں باپ كا لڑكی كو خلع كا مشورہ دینا؟

    سوال: میں ہندوستان ریاست کرناٹک سے ہوں۔تقریباً ایک سال سے کویت میں رہائش پزیر ہوں۔اس جنوری کے مہینے سے میر ی دس ماہ کی بیٹی اور میری بیوی بھی میرے ساتھ کویت میں رہتے ہیں۔ ہماری شادی ہوے تقریبا 2.5سالُ گزر چکے ہیں۔مختصر سے میں اتنا بتا دو کی ہمارے آپسی چھوٹے سے جھگڑے میں جسمیں کسی بھی طرح کا دشدت اور ظلم نہ تھا،بس میری بیوی نے اپنی ماں کو کویت بلوانے کی فرمائش کی تھی جس پہ میں نے انکا ر کیا، کیونکہ میری بیوی کو کویت اے ہوے صرف دو ہی ہفتے گزرے تھے اور میں اس حالات میں نہیں ہو کہ اپنی ساس کو یہا ں پہ بلاوں۔پہر پتا نہیں میری غیر موجودگی میں میری بیوی نے اپنے ماں باپ سے کیا شکایت کی کہ خود میری بیوی نے اپنے باپ کو کال کرکے مجھے بد طمیزی ے بات کرواء ۔میری ساسر نے گالی گلوچ کی اور مجھے اپنی بیٹی فوراً انڈیا روانہ کرنے کیلے کہا۔ اور اپنی بیٹی کو مجھے خلع دینے کا مشورہ دیا۔ مجھے بتائیں کہ ایک شادی شدہ زندگی میں ماں کی مداخلت کہا تک درست ہے۔ کیا ایک باپ اپنی بیٹی کو خلع کا مشورہ دے سکتا ہے۔ میں اپنی طرف سے یہ تصدیق کردوں کہ میں نے اپنی بیوی کے سارے بنیادی حقوق ادا کر نے کی ہمیشہ کوشش کی۔اور میری طرف سے کسی بھی طرح کا ظلم اور تشدت نہیں ہوا۔

    جواب نمبر: 177871

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 744-78T/B=09/1441

    بلاوجہ شرعی شادی شدہ زندگی میں ماں کی مداخلت اور اپنی بیٹی کو خلع کا مشورہ دینا بہت سنگین گناہ ہے؛ ساس کو ایسی حرکت کرنے کا ہرگز کوئی اختیار نہیں۔ خلع کا نمبر تو اس وقت آتا ہے جب کہ میاں بیوی میں اتنا بگاڑ پیدا ہو جائے کہ بیوی کا اپنے شوہر کے ساتھ رہنا ناممکن ہو جائے نبھاوٴ کی کوئی صورت نہ ہو، یہاں تو بیوی کے سارے حقوق ادا ہو رہے ہیں کوئی ظلم اور تشدد شوہر کی طرف سے بیوی پر نہیں ہوا ہے۔ ساس نے اپنے داماد کے ساتھ جو بدتمیزی کی اور گالی سے بات کی ہے یہ ساس کی سراسر زیادتی ہے، ساس کو چاہئے کہ اپنے داماد سے معافی مانگے اور اپنے ماحول کو بہتر سے بہتر بنائے۔ خلع کی بات کرنا سراسر ظلم ہے۔ ساس کو اللہ سے ڈرنا چاہئے اس طرح کی زیادتی سے باز آنا چاہئے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند