معاشرت >> طلاق و خلع
سوال نمبر: 173647
جواب نمبر: 173647
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 119-94/M=02/1441
وضع حمل کے ذریعہ عدت پوری ہونے کے لئے لازم ہے کہ بچہ کی خلقت واضح ہوگئی ہو یا کوئی عضو مثلاً ہاتھ، پیر وغیرہ بن گیا ہو یا حمل میں جان پڑ گئی ہو، حمل کے پہلے مہینے میں یہ سب کچھ نہیں ہوتا لہٰذا صورت مسئولہ میں اسقاط حمل کی وجہ سے عدت پوری نہیں ہوئی بلکہ تین حیض کے ذریعہ عدت پوری ہوگی، حمل ضائع کرنے کے بعد اگر کم سے کم تین دن تک خون آیا تو وہ ایک حیض شمار ہوگا اور اس کے بعد دوحیض اور گذارنے ہوں گے تب عدت ختم ہوگی، اور بغیر سخت مجبوری کے اگر حمل ضائع کیا گیا تو اس گناہ سے توبہ لازم ہے اور گھر والوں نے ناحق پریشر ڈالا ہے تو وہ بھی گنہ گار ہوئے۔ وإذا أسقطت سقطاً استبان بعض خلقہ انقضت بہ العدة لأنہ ولد وإن لم یستبن بعض خلقہ لم تنقض الخ (البحر الرائق: ۴/۲۲۹، زکریا)
-----------------------------
جو حکم لکھا گیا ہے وہ درست ہے۔ (س)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند