• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 167918

    عنوان: خلوت صحیحہ كے بعد مطلقہ كی عدت كے بارے میں

    سوال: آج کل منگنی کا سلسلہ خوب رائج ہے مرد اور عورت ملتے ہیں بات چیت کرتے ہیں، علماء مشورہ دیتے ہیں کہ نکاح کرلیں تاکہ یہ ملاقاتیں شرعا جائز ہو جائیں. حال میں میری نجی کا نکاح سال بہر قا رہنے کے بعد رخصتی سے قبل خلع کے ذریعے ختم ہو گیا۔ چونکہ نکاح کے رشتے میں منسلک تھے تو ساتھ گھومنے پھرنے کا اور وقت گزارنے کا موقع ملتا رہتا تھا۔ جماع و دواعء جماع تک تو نوبت نہ پہنچی تاہم ’خلوت صحیحہ‘ کے قائم مقام ہونے کا شبہہ لگتا ہے ۔ اس صورت میں کچھ امور میں رہنماء درکار ہے .: اگر خلوت صحیحہ کے لیے تنہائی میسر آگئی تو عدت کا حکم ہوگا جیسا کہ احناف کا فتوی ہے ؟ اس صورت میں چند اشکالات کا جواب مطلوب ہے : کیا یہ مسئلہ عند الاحناف متفق علیہ ہے ؟ ۔ دیگر مجتہدین کی اس سلسلے میں رائے ہے ؟ - کیا یہ نص قطعی سے ثابت شدہ ہے یا قیاس اور مقاصد الشریعہ کے اصول سے مستنبط ہے ؟ - رشتہ ختم ہونے کے ڈر سے عدت کا لزوم بالخصوص باکرہ کے حق میں بہت بڑی زحمت ہے کیونکہ رشتوں کی کمی اور پھر عدت کا ’دھبہ‘ آئندہ نکاح کے راستے تنگ کرنے کا سبب ہے ۔ جہالت کے عام ہونے سے بہت سی لڑکیوں کا رشتہ خطرہ کی زد میں ہے - خلوت کی یہ صورت کئی ماہ پہلے پیش آئی جب حالات سازگار تھے - کئی ماہ اور کئی حیض گزر چکے ہیں۔ یعنی حمل کا کوئی امکان نہیں ہے - اس صورت میں کوئی گنجائش؟ - اس بات کی شہرت کے نتیجے میں اگر لوگ آئندہ نکاح کے بجائے پرانے طرز پہ محض منگنی کر کے ساتھ گھومنے پھرنے کی طرف مائل ہونے لگے کہ رشتہ ٹوٹنے کی صورت میں عدت کا حکم نہیں تو کیا منطقی نتیجہ نہیں نکلتاکہ حلال بندھن تو مشکل اور حرام آسان ہے ؟ - کیا میڈیکل رپورٹ اور ٹیسٹ وغیرہ اس قضیہ میں معاون ہو سکتے ہیں؟ یہ طالبعلمانہ اشکالات موجودہ صورتحال کو سمجھنے کی غرض سے پیش کرنے کی جسارت کی ہے تاکہ اس مشقت میں اگر تیسیر کی گنجائش ہو تو کچھ لوگوں کا مسئلہ حل ہو جائے گا اور نکاح کا مشورہ آئندہ بھی دینے کی ہمت ہوگی۔ براہ کرم اس سلسلے اپنی قیمتی آراء سے نوازیں۔ اللہ آپ کو اپنے شایان شان اجر عطا فرمائے-

    جواب نمبر: 167918

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 403-62T/D=05/1440

    نکاح کے بعد اگر خلوت صحیحہ ہو چکی ہے تو عند الاحناف یہ مسئلہ متفق علیہ ہے کہ بیوی پر عدت واجب ہوگی یہ نص قطعی سے ثابت ہے قرآن میں ایک جگہ ہے ” ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْہُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْہُنَّ فَمَا لَکُمْ عَلَیْہِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّوْنَہَا“ (الأحزاب: ۴۹) اور دوسری جگہ ہے: ”وَالمطَلَقَات یَتَرَبَصنَ باَنفسہنَ ثَلَاثَةَ قروء“ (البقرة: ۲۲۸) پہلی آیت میں غیر مدخول بہا کا حکم بیان کیا گیا ہے کہ اس پر عدت واجب نہیں ہے، اور دوسری آیت میں اس عورت کا حکم بیان کیا گیا ہے جس سے اس کے شوہر نے صحبت کرلی ہو، یا خلوت صحیحہ ہو چکی ہو اور اس کو حیض آتا ہے کہ اس پر عدت (تین حیض) ضروری ہے، (معارف القرآن) اور عدت گزارنے کے لئے سب کو عام طور پر بتانے یا اعلان کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بس اتنا کافی ہے کہ وہ گھر میں رہے، اِدھر اُدھر نہ نکلے، اور زیب و زینت کی چیزوں سے پرہیز کرے، اگر طلاق یا خلع کے بعد تین حیض کا زمانہ گزر جائے تب بھی عدت پوری ہو جائے گی چاہے کسی آدمی کو معلوم بھی نہ ہو، ہاں اگر عورت نے عدت کے شرعی احکام مثلاً کہیں آنے جانے اور زیب و زینت کی چیزوں سے پرہیز نہ کیا ہوگا تو گنہ گار ہوگی، طلاق یا خلع کے بعد تین حیض یا تین مہینے گزرنے چاہئے، اس سے پہلے کتنے ہی زمانے شوہر سے دُور رہی ہو اس کا شمار عدت میں نہیں ہوگا، اور عدت بہرصورت شریعت کا حکم ہے چاہے حمل کا امکان ہو یا نہ ہو، لہٰذا طلاق کے بعد صرف میڈیکل رپورٹ یا ٹیسٹ کرانے سے عدت ساقط نہیں ہوگی۔ وہي فی حرّة تحیض لطلاق أو فسخ بعد الدخول حقیقة أو حکماً ثلاث حیض کوامل (الدر المختار: ۵/۱۸۱، ۱۸۲، ط: زکریا دیوبند) تحد مکلفة مسلمة ․․․․ إذا کانت معتدة بتّ أو موت ․․․․ بترک الزینة بحلي أو حریر أو متشاط بضیق الأسنان والطیب ․․․․ والدہن ․․․ والکحل والحناء ولبس المعصفر والمزعفر ․․․․ ولاتخرج معتدة رجعي وبائن ․․․ لو حرّة ․․․․ مکلفة من بیتہا أصلاً (تنویر الأبصار مع الدر: ۵/۲۱۷- ۲۲۴، زکریا دیوبند) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند