معاشرت >> طلاق و خلع
سوال نمبر: 167918
جواب نمبر: 167918
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 403-62T/D=05/1440
نکاح کے بعد اگر خلوت صحیحہ ہو چکی ہے تو عند الاحناف یہ مسئلہ متفق علیہ ہے کہ بیوی پر عدت واجب ہوگی یہ نص قطعی سے ثابت ہے قرآن میں ایک جگہ ہے ” ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْہُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْہُنَّ فَمَا لَکُمْ عَلَیْہِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّوْنَہَا“ (الأحزاب: ۴۹) اور دوسری جگہ ہے: ”وَالمطَلَقَات یَتَرَبَصنَ باَنفسہنَ ثَلَاثَةَ قروء“ (البقرة: ۲۲۸) پہلی آیت میں غیر مدخول بہا کا حکم بیان کیا گیا ہے کہ اس پر عدت واجب نہیں ہے، اور دوسری آیت میں اس عورت کا حکم بیان کیا گیا ہے جس سے اس کے شوہر نے صحبت کرلی ہو، یا خلوت صحیحہ ہو چکی ہو اور اس کو حیض آتا ہے کہ اس پر عدت (تین حیض) ضروری ہے، (معارف القرآن) اور عدت گزارنے کے لئے سب کو عام طور پر بتانے یا اعلان کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بس اتنا کافی ہے کہ وہ گھر میں رہے، اِدھر اُدھر نہ نکلے، اور زیب و زینت کی چیزوں سے پرہیز کرے، اگر طلاق یا خلع کے بعد تین حیض کا زمانہ گزر جائے تب بھی عدت پوری ہو جائے گی چاہے کسی آدمی کو معلوم بھی نہ ہو، ہاں اگر عورت نے عدت کے شرعی احکام مثلاً کہیں آنے جانے اور زیب و زینت کی چیزوں سے پرہیز نہ کیا ہوگا تو گنہ گار ہوگی، طلاق یا خلع کے بعد تین حیض یا تین مہینے گزرنے چاہئے، اس سے پہلے کتنے ہی زمانے شوہر سے دُور رہی ہو اس کا شمار عدت میں نہیں ہوگا، اور عدت بہرصورت شریعت کا حکم ہے چاہے حمل کا امکان ہو یا نہ ہو، لہٰذا طلاق کے بعد صرف میڈیکل رپورٹ یا ٹیسٹ کرانے سے عدت ساقط نہیں ہوگی۔ وہي فی حرّة تحیض لطلاق أو فسخ بعد الدخول حقیقة أو حکماً ثلاث حیض کوامل (الدر المختار: ۵/۱۸۱، ۱۸۲، ط: زکریا دیوبند) تحد مکلفة مسلمة ․․․․ إذا کانت معتدة بتّ أو موت ․․․․ بترک الزینة بحلي أو حریر أو متشاط بضیق الأسنان والطیب ․․․․ والدہن ․․․ والکحل والحناء ولبس المعصفر والمزعفر ․․․․ ولاتخرج معتدة رجعي وبائن ․․․ لو حرّة ․․․․ مکلفة من بیتہا أصلاً (تنویر الأبصار مع الدر: ۵/۲۱۷- ۲۲۴، زکریا دیوبند) ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند