• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 166657

    عنوان: طلاق کا مطالبہ کوئی اچھی چیز نہیں ہے

    سوال: والدہ کی بیماری کی وجہ سے اور بچے چونکہ بڑے ہو رہے تھے ان کی تعلیم کی وجہ سے مجھے 2017 میں آسٹریلیا سے پاکستان آنا پڑا۔ میری بیگم اس فیصلے سے خوش نہیں تھی، اور طلاق کا مطالبہ کر رہی تھیں طلاق نہ دینے پر وہ میری اجازت کے بغیر گھر چھوڑ کے چلی گئی اور جاتے ہوئے بچوں کے پاسپورٹ، زیورات اور دیگر اشیاء ساتھ لے گئی ہے اور دھمکی دی ہے کہ میں اکیلی بچوں کو لے کر آسٹریلیا چلی جاؤں گی۔ اب میرا مطالبہ ہے کہ اگر اس نے واپس آنا ہے تو وہ چیزیں ساتھ لے کر آنی پڑیں گی لیکن وہ بضد ہے کہ یہ چیزیں میں نہیں لاونگی۔ مجھے میرے بچوں سے بھی نہیں ملنے دیا جارہا۔ کچھ رہنمائی کریں کہ اس صورتحال سے کیسے نمٹا جائے ۔ نیز کیا ایسی صورت میں مجھ پر لازم ہے بچوں کا خرچہ دینا کیونکہ زیورات کی مالیت 6 لاکھ سے زیادہ ہے اور اس میں تین لاکھ کے زیورات حق مہر کے طور پر دیے تہے اور باقی وہ زیورات ہیں جو میں نے اسے پہننے کے لیے دیے تھے اس کے علاوہ تقریبا ڈھائی لاکھ روپے کیش پاکستان آتے ہوئے میں نے بیوی کو دیئے اس کا کوئی حساب نہیں لیا، جبکہ گھر کا سارا خرچہ میں کرتا رہا ہوں- ایک سال ہوچکا ہے وہ ابھی تک واپس نہیں آئی۔ نیز اگر خرچہ لازم ہے تو خرچہ کی کوئی اماونٹ بھی بتا دیں- میری دو بیٹیاں ہیں- ایک کی عمر چھ سال دوسری چار سال کی ہے ۔

    جواب نمبر: 166657

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 186-177/D=3/1440

    صور ت مسئولہ میں قرآنی ہدایت کے مطابق عمل کیا جائے تو اللہ کی ذات سے امید ہے کہ آپس میں موافقت ہو جائے گی، اس لئے کہ طلاق کا مطالبہ کوئی اچھی چیز نہیں ہے، اور اس کی وجہ سے بچوں پر بھی غلط اثر پڑتا ہے، لہٰذا شوہر اور بیوی میں سے ہر ایک کی طرف سے ایک ایک حَکَم مقرر کر لئے جائیں، حَکَمین امانت دار، دین دار ، صاحب وقار ، معاملہ فہم ہوں، پھر حکمین میاں بیوی کے حالات کا جائز ہ لیں، ان کے تمام واقعات سے مطلع ہوں، اُن دونوں کی شکوہ شکایت سن کر ان کے درمیان موافقت پیدا کرانے کی کوشش کریں، اور ان دونوں کے محبت اور میل ملاپ کے ساتھ رہنے کی تدبیر کریں، اللہ کا وعدہ ہے کہ جب حکمین صلح کرانے اور موافقت کرانے کی کوشش کریں گے تو اللہ تعالی دونوں میں موافقت پیدا کردیں گے ، نیز زیورات کا حساب بھی حکمین ہی کریں، البتہ بچوں کا خرچہ بہرحال باپ پر ہوگا۔ (النساء: ۳۵)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند