• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 155281

    عنوان: طلاق دینی ہو تو اس میں كس طرح كے الفاظ کہنا جائز ہے؟

    سوال: مفتی صاحب! مجھے یہ پتا کرنا تھا کہ اگر کسی مرد نے کسی غلط فہمی کی وجہ سے اپنی بیوی کو طلاق دینی ہو تو اس میں کیا الفاظ کہنا جائز ہے؟ اور کن گواہوں کا موجود ہونا جائز ہے؟ اور اگر مرد کسی کتاب میں پڑھتے وقت تین بار لگاتار ایک الفاظ طلاق پڑھ لے اور بیوی سامنے بیٹھی ہو تو طلاق ہو جاتی ہے یا نہیں؟ اگر کوئی غلط فہمی دور ہو جائے اور مرد پھر سے اپنی بیوی کو طلاق کے مہینے یعنی عدت کے دوران واپس پانا چاہتا ہو تو اس کا کوئی اسلام میں جائز طریقہ ہے یا نہیں؟ اگر ہے! تو کیا طریقہ ہے؟ اگر میاں بیوی دونوں طلاق کے مہینے کے دوران ساری غلط فہمیاں دور کرکے طلاق کو توڑنا چاہتے ہوں تو اسلام میں اس کا کوئی طریقہ ہے یا نہیں؟ اگر ہے! تو کیا ہے؟ براہ کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں سمجھائیں۔ جواب اردو میں بھی دے سکتے ہیں۔ اور ”طلاق کے دوران رجوع کرنا کسے کہتے ہیں“ تفصیل سے سمجھائیں اور یہ کب جائز ہے اور کیا کرنے پر جائز ہے؟ براہ کرم ہمیں صحیح طریقے سے سمجھائیں۔ ۲۹/ ستمبر ۲۰۱۷ء کو کسی کے ساتھ یہ معاملہ پیش آیا ہے۔ اور اب تک اس معاملے میں کوئی کیس یا ایف آئی آر درج نہیں کیا گیاہے۔ میاں بیوی ان کے دو بچے بھی ہیں۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں صحیح صلاح دیں۔

    جواب نمبر: 155281

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:103-11/L=2/1439

     

    (۱،۳،۴) اگر کبھی حالات ایسے پیدا ہوجائیں کہ طلاق دینا نا گزیر ہو جائے تو صرف ایک طلاق دی جائے مثلاًشوہر یہ کہدے کہ میں نے تجھے طلاق دی اور بیوی کو اسی حالت میں چھوڑ دے تاآنکہ اس کی عدت پوری ہوجائے،اگر تاوقتِ عدت شوہر کو یہ لگے کہ ساتھ رہنے میں ہی بھلاہی ہے تو اس صورت میں شوہر کو رجعت کا اختیار ہوگا اور رجعت کی صورت یہ ہوگی کہ شوہر یہ کہدے کہ میں نے بیوی سے رجعت کرلی ہے رجعت ہو جائے گی،اور رجعت پر دو گواہ بنا لینا بہتر ہے۔ واضح رہے کہ رجعت کا اختیار شوہر کو اسی وقت تک رہتا ہے جبکہ شوہر نے تین طلاق یا طلاق بائن نہ دی ہو،تین طلاق کے بعد بغیر حلالہ شرعی دوبارہ نکاح کی گنجائش باقی نہیں رہتی اورطلاق بائن میں عدت میں یا بعد عدت دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہوتا ہے۔وإذا طلق الرجل امرأتہ تطلیقة رجعیة أو تطلیقتین فلہ أن یراجعہا في عدتہا رضیت بذلک أو لم ترض (الفتاوی الہندیة: ۱/۵۳۳، مکتبہ اتحاد) إذا کان الطلاق بائنا دون الثلاث، فلہ أن یتزوجہا في العدة وبعد انقضائہا (الفتاوی الہندیہ: ۱/۵۳۵مکتبہ اتحاد) وإن کان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتین في الأمة لم تحل لہ حتی تنکح زوجًا غیرہ نکاحا صحیحا ویدخل بہا ثم ثطلقہا (الفتاوی الہندیہ: ۱/۵۳۵، مکتبہ اتحاد) ۔

    (۲) طلاق کے وقوع کے لیے بیوی کو قصد کرکے طلاق کے الفاظ کا تلفظ ضروری ہے،اگر کوئی شخص کسی کتاب میں پڑھتے وقت الفاظ طلاق پڑھ لے جبکہ اس سے مقصود بیوی نہ ہو تو محض بیوی کے وہاں موجود رہنے سے طلاق واقع نہ ہوگی۔ لو کرر مسائل الطلاق بحضرتہا، یقول في کل مرة أنتِ طالق لم یقع (الأشباہ والنظائر: ۱/۴۵)

    نوٹ :طلاق کے وقوع کے لیے گواہوں کا موجود رہنا ضروری نہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند