معاشرت >> طلاق و خلع
سوال نمبر: 154825
جواب نمبر: 154825
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 1462-1432/N=1/1439
کسی شرط پر اگر کوئی طلاق معلق کی جائے تو وہ کسی صورت میں واپس نہیں لی جاسکتی ؛ بلکہ جب بھی شرط پائی جائے گی اور عورت نکاح یا عدت میں ہوگی تو حسب شرط اس پر طلاق واقع ہوجائے گی ؛ اس لیے صورت مسئولہ میں زید کی بیوی جب بھی اپنے میکے جائے گی تو حسب شرط اس پر ایک طلاق رجعی واقع ہوجائے گی اور قسم ختم ہوجائے گی؛ البتہ طلاق رجعی کی صورت میں چوں کہ عدت میں شوہر کو رجعت کا حق ہوتا ہے؛ اس لیے زید عدت ہی میں رجعت کرلے، اس کے بعد آئندہ کبھی اگر زید کی بیوی اپنے میکہ جائے گی تو اس پر کوئی طلاق واقع نہ ہوگی۔
اور رجعت کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ زید کم از کم دو مسلمان وعادل مرد یا ایک مسلمان و عادل مرد اور دو مسلمان وعادل عورتوں کی موجودگی میں کہہ دے کہ میری اپنی بیوی پر ایک طلاق (رجعی) واقع ہوئی ہے اور ابھی وہ عدت میں ہے ، آپ لوگ گواہ رہیں کہ میں اس سے رجعت کرتا ہوں، اس کے بعد بیوی کو رجعت کی اطلاع کردے،یا زید اپنی بیوی کو مخاطب بناکر کہے کہ میں آپ سے رجعت کرتا ہوں اور اس پر کم از کم دو مسلمان وعادل مرد یاایک مسلمان وعادل مرد اور دو مسلمان وعادل عورتوں کو گواہ بنالے۔
اور اگر اس نے عدت میں رجعت نہیں کی تو عدت کے بعد اس کی بیوی مکمل طور پر اس کے نکاح سے نکل جائے گی؛ البتہ حلالہ کے بغیر باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح کی اجازت ہوگی ، اور رجعت یا نکاح جدید دونوں صورتوں میں آئندہ زید کو صرف ما بقیہ : ۲/ طلاق کا حق ہوگا ، مکمل تین کا نہیں۔
وإذا طلق الرجل امرأتہ تطلیقة رجعیة أو تطلیقتین فلہ أن یراجعھا فی العدة رضیت بذلک أو لم ترض لقولہ تعالی: فأمسکوھن بمعروف من غیر فصل الخ، والرجعة أن یقول راجعتک أو راجعت امرأتي، وھذا صریح فی الرجعة ولا خلاف بین الأئمة، …،ویستحب أن یشھد علی الرجعة شاھدین الخ (الھدایة ، کتاب الطلاق باب الرجعة ۲: ۳۷۳، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند