• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 15476

    عنوان:

    میں نے اپنی بیوی کے رویہ سے تنگ آکر اسے تین طلاق لکھ کر بھیج دی۔اب لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ قرآن اور سنت کے مطابق یہ ایک طلاق ہوئی ہے، کیوں کہ انھوں نے اہل حدیث کے علماء سے ایسا فتوی لیا ہے کہ ایک وقت میں دی ہوئی متعدد طلاقیں ایک ہی تصور ہوتی ہیں۔ جب کہ ہم لوگ (میں اور میری بیوی دونوں)حنفی ہیں۔ س فتوی کی بنیاد پر مجھ سے یہ کہا جارہا ہے کہ تم رجوع کرلو۔ میں یہ پوچھنا چاہتاہوں کہ کیا واقعی ایک طلاق ہوئی او ررجوع ممکن ہے؟ اور اگر قرآن اور سنت کے مطابق یہ ایک طلاق ہوئی ہے تو احناف اس کو تین طلاق کیوں شمار کرتے ہیں؟

    سوال:

    میں نے اپنی بیوی کے رویہ سے تنگ آکر اسے تین طلاق لکھ کر بھیج دی۔اب لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ قرآن اور سنت کے مطابق یہ ایک طلاق ہوئی ہے، کیوں کہ انھوں نے اہل حدیث کے علماء سے ایسا فتوی لیا ہے کہ ایک وقت میں دی ہوئی متعدد طلاقیں ایک ہی تصور ہوتی ہیں۔ جب کہ ہم لوگ (میں اور میری بیوی دونوں)حنفی ہیں۔ س فتوی کی بنیاد پر مجھ سے یہ کہا جارہا ہے کہ تم رجوع کرلو۔ میں یہ پوچھنا چاہتاہوں کہ کیا واقعی ایک طلاق ہوئی او ررجوع ممکن ہے؟ اور اگر قرآن اور سنت کے مطابق یہ ایک طلاق ہوئی ہے تو احناف اس کو تین طلاق کیوں شمار کرتے ہیں؟

    جواب نمبر: 15476

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1596=201k/1430

     

    ایک مجلس میں دی ہوئی تین طلاقیں تین ہی واقع ہوتی ہیں، نکاح بالکلیہ ختم ہوجاتا ہے، بیوی حرام ہوجاتی ہے اور اس سے دوبارہ نکاح بدون حلالہ شرعیہ کے جائز نہیں ہوتا۔ یہ مضمون قرآن پاک کی آیات اور احادیث سے ثابت ہے۔ الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ․․․ إلی فَاِنْ طَلَّقَہَا فَلَا تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ۔ نسائی شریف کی روایت ہے: قال سمعت محمود بن لبید قال: أخبر رسولا للہ صلی اللہ علیہ وسلم عن رجل طلق امرأتہ ثلاث تطلیقات جمیعا فقام غضبان ثم قال: أیلعب بکتاب اللہ وأنا بین أظہرکم حتی قال رجل وقال یا رسول اللہ ألا أقتلہ (نسائی: ۲/۳۶) اگر اس واقعہ میں تین طلاق واقع نہ ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے فرمادیتے کہ رجوع کرلو، قاضی ابوبکر ابن العربی نے اس حدیث کے متعلق فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عویمر عجلانی کی تین طلاقوں کی طرح اس شخص کی بھی تین طلاقوں کو نافذ فرمادیا تھا: فلم یرہ بل أمضاہ کما في حدیث عویمر العجلاني في اللعان حیث أمضی الثلاث ولم یردہ (تہذیب سنن أبي داوٴد؛ ۳/۱۲۹) بناء ً علیہ جمہور صحابہٴ کرام تابعین عظام اور فقہاء ومحدثین کے نزدیک بالاجماع ایک مجلس کی تین طلاق سے تین ہی واقع ہونے کا حکم ہے۔ تفصیل کے لیے عمدة الأثاث في الطلاق الثلاث کا مطالعہ فرمالیں۔

    جس غیرمقلد نے ایک طلاق واقع ہونے اور آپ کو رجعت کا حق حاصل ہونے کی بات کہی ہے وہ قرآن وحدیث سے ثابت حکم کے خلاف ہے اور اجماع صحابہ وتابعین وجمہور فقہاء کے قول کے مخالف ہے، اس پر عمل کرنا جائز نہیں ہے۔ لہٰذا آپ کی بیوی پر صورتِ مذکورہ میں تین طلاق واقع ہوگئی، اب بدون حلالہ شرعیہ دوبارہ اس سے آپ کا نکاح نہیں ہوسکتا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند