• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 154586

    عنوان: وقوعِ طلاق کے لیے بیوی یا اس کے گھر والے یا کسی اور فرد کا سامنے ہونا ضروری ہے كیا؟

    سوال: سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں۔ میرے شادی 31/10/2009 کو ثنائاللہ مرحوم کی چھوٹی بیٹی کے ساتھ ہوئی تھی۔ اس شادی سے 2 بیٹے اللہ نے عطا فرمائے ۔ شادی چار سال کے بعد بھی ہندوستان میں کام کی کوئی صورت نہیں بن پائی اور اس وجہ سے احقر کو مجبوراً دبئی میں کام کرنے کے لیے جانا پڑا۔ اور وہاں سے معقول خرچہ اخراجات کے لیے ہر ماہ بھیجتا۔احقر سال میں ایک ماہ کی چھٹی پر گھر واپس آتا اور چلا جاتا۔مگر اس درمیان احقر کو اپنی بیوی کے بدکار ہونے کا معلوم پڑا۔جنوری 2017 میں احقر جب واپس آیا تو اس کی بدکاریوں کے بارے میں خاموشی سے تحقیق کی جو بالکل صحیح تھی۔ اس کے بعد احقر نے اس کو موقع مر پکڑ بھی لیا۔احقر نے اپنی بیوی کے گھر والوں کو اس کی خبر دی اور اپنی بیوی کو اس کے گھر والوں کے ساتھ بھج دیا۔احقر نے کافی سوچنے اور گھر میں مشورہ کرنے کے بعد مارچ 2017 کو اس کو طلاق دے دی۔مگر اس وقت میرے پاس کوئی موجود نہیں تھا۔بعد میں اس کا اقرار اپنے گھر والوں کے سامنے کیا۔دوسری مرتبہ اپریل 2017 میں گواہوں کے سامنے طلاق دی۔اور تیسری مرتبہ جون 2017 میں گواہوں کے سامنے طلاق دی۔جس کا پورا علم لڑکی کے گھر والوں کو خاص ذرائع سے مل گیا۔اب آپ بتائیں کہ طلاق شریعت کے مطابق ہو گئی ہے یا نہیں؟

    جواب نمبر: 154586

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1400-1370/sn=1/1439

    صورت مسئولہ میں طلاق تو بلاشبہ ہوگئی، وقوعِ طلاق کے لیے بیوی یا اس کے گھر والے یا کسی اور فرد کا سامنے ہونا ضروری نہیں ہے، بس شوہر کا اقرار ہی کافی ہے؛ البتہ آپ نے سوال میں یہ وضاحت نہیں کی کہ مارچ ۲۰۱۷ء میں جو طلاق دی تھی وہ کتنی تھی؟ اسی طرح دوسرے اور تیسرے مرتبہ کتنی طلاقیں آپ نے دی؟ نیز سوال میں یہ بھی واضح نہیں کہ متعدد وقفہ کے ساتھ طلاق دینے کی کیا ضرورت درپیش تھی؟ اپریل ۲۰۱۷ء کو جب آپ نے تیسری مرتبہ طلاق دی تھی، پہلی طلاق سے اس وقت تک آپ کی بیوی کو تین مکمل ماہواری آچکی تھی یا نہیں؟ ان امور کی مکمل وضاحت آنے پر یہ لکھا جاسکتا ہے کہ صورت مسئولہ میں کتنی طلاقیں واقع ہوئیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند