• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 153465

    عنوان: كیا طلاق كے لیے نیت ہونا ضروری ہے؟

    سوال: میں نے کسی دوست سے طلاق کا مسئلہ پوچھا تھا تب اس نے مجھے بتایا تھا کہ نیت کا ہونا، بیوی کے سامنے ہونا ،تین بار بولنا وغیرہ وغیرہ ۔ کچھ دن بعد میں گھر سے دفتر کے لیے نکلا تو اچانک میری زبان سے تین بار طلاق کا لفظ نکلا (بولنے سے کچھ نہیں ہوتا)۔ اس کے بعد میں نے استغفر اللہ پڑھا اور بولا کہ یہ الفاظ زبان پر اچھے نہیں کسی عالم دین سے پوچھنا چاہئے․․․․․ اس کے بعد میں نے ایک بیان میں طلاق کے بارے میں سنا، تب مجھے یہ باتیں یاد آئیں ․․․․ مجھے طلاق کا معاملہ بالکل بھی نہیں معلوم تھا اور نہ ہی میری نیت تھی کہ میں اپنی بیوی کو طلاق دوں، نہ ہی کوئی موجود تھا جو میری بات کو سنے۔ اس معاملے کو ہوئے تقریباً ۶/ ماہ ہو گئے، مجھے صحیح سے پتا بھی نہیں کہ کیا بولا اور کیا سوچا۔ جتنی باتیں یاد تھیں میں نے سب بتاڈالیں۔ میں لکھے والے الفاظ سوچا یا بولا یہ مجھے یاد نہیں۔ مہربانی کر کے اس مسئلہ کا حل بتائیں۔

    جواب نمبر: 153465

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1362-1375/L=12/1438

    طلاق کے وقوع کے لیے بیوی کا سامنے موجود رہنا یا صریح الفاظ سے طلاق دیتے وقت نیت کرنا ضروری نہیں؛ البتہ طلاق کے وقوع کے لیے صراحتاً یا دلالةً بیوی کی طرف طلاق کی نسبت کرنا ضروری ہے، پس اگر آپ کی زبان سے بلااختیار یونہی طلاق، طلاق، طلاق نکل گیا یہ جملہ کہتے وقت بیوی کا قصد وارادہ بالکل ہی نہ تھا تو بیوی پر طلاق واقع نہیں ہوئی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند