• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 151976

    عنوان: طلاق کا طریقہ نہ معلوم ہو اور تین طلاق كہہ دینا

    سوال: میری بہن مہناز کی ان کے شوہر سے لڑائی ہوئی غصہ میں ان کے شوہر نے مہناز کے بھائی سے جو وہاں موجود تھے یہ کہا کہ آپ کی بہن نہ میرے ساتھ رہ سکتی اور نہ میں ان کے ساتھ رہ سکتا ہوں، اس لئے میں طلاق دیتا ہوں طلاق طلاق طلاق لیکن بعد میں ان کا کہنا یہ ہے کہ میری نیت ایک طلاق کی ہی تھی مگر میں یہ سمجھتا تھا کہ طلاق طلاق طلاق ایک جملہ ہے اور اس سے ایک بار ہی طلاق ہوتی ہے اور نو بار کہنے سے تین بار ہوتی ہے ان کی بیوی مہناز نے مسلم پرسنل لا ہیلپ لائن پر فون کرکے واقعہ بتایا تو انہونے کہا طلاق شوہر کا حق ہے اگر وہ اس طرح کہہ رہیں ہے کہ نیت ایک ہی تھی تو مان لیا جائے گا آپ اپنے شہر کی قضیات سے کہیں کہ نیت پر فتوی دیں، نیز انہونے کسی عالم کے بیان میں بھی سنا کہ اگر طریقہ نہیں معلوم مگر نیت ایک کی ہی تھی تو ایک ہی طلاق ہوگی میری بہن مہناز نے پہلے تو اسے طلاق مغلظہ ہی سمجھا مگر پرسنل لا اور ان عالم کے بیان کے بعد وہ چاہ رہی ہیں کہ کسی طرح رجوع ہو جائے خود ان کے شوہر بھی رجوع کے لئے جگہ جگہ جوکر اپنا مسئلہ دریافت کررہے ہیں۔ برائے کرم یہ بتائیں کہ ان کی کونسی طلاق ہوئی ہے کیا اس طرح طلاق دینے کے بعد رجوع کیا جا سکتا ہے ؟

    جواب نمبر: 151976

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 854-739/D=9/1438

    میں طلاق دیتا ہوں طلاق طلاق طلاق میں تین سے زاید طلاق کے الفاظ استعمال ہوئے اس لیے بیوی پر تین طلاق مغلظہ واقع ہوگئی اس کا یہ کہنا کہ میری نیت ایک طلاق کی تھی قضاءً معتبر نہ ہوگی کیونکہ مکرر الفاظ طلاق کے اندر عدم تعدد کی نیت خلاف اصل ہے اس لیے اس کی ایک کی نیت قضاءً غیر معتبر ہے۔ البتہ دیانةً معتبر ہونے کی گنجائش تھی لیکن یہ اسی وقت تک ہے جب معاملہ قاضی یا شرعی پنچایت تک نہ پہونچا ہو اگر قاضی یا شرعی پنچایت تک معاملہ پہونچ گیا تو دیانت سے نکل گیا۔

    اسی طرح اگر خود عورت (بیوی) نے سن لیا یا کسی ذریعہ سے اس تک بات پہونچ گئی تو بھی دیانت سے معاملہ نکل گیا کیونکہ بیوی خود اپنے حق میں قاضی ہوتی ہے المرأة کالقاضی لہٰذا بیوی تک پہونچ جانے سے معاملہ قضا میں داخل ہوگیا اس سے پہلے تک دیانت کے دائرے میں تھا اذا نوی التاکید دُین کا محل یہی ہے کہ نہ عورت کو معلوم ہو نہ قاضی اور شرعی پنچایت تک معاملہ پہونچا ہو بلکہ غائبانہ جہاں بیوی نہ ہو شوہر نے طلاق طلاق طلاق کے الفاظ کہہ دیئے پھر بحلف کہے کہ میری نیت صرف ایک طلاق دینے کی تھی دو مرتبہ طلاق کا لفظ محض تاکید کے طور پر کہہ دیا تھا تو اس صورت میں فیما بینہ وبین اللہ تصدیق کرلی جائے گی اور شوہر کی رجعت صحیح قرار دی جائے گی۔

    صورت مسئولہ میں شوہر کی اپنی بیوی مہناز سے لڑائی ہوئی اور اسی دوران مہناز کے بھائی سے یہ کہہ کر کہ تمہاری بہن میرے ساتھ نہیں رہ سکتی میں طلاق دیتا ہوں طلاق طلاق طلاق۔ اس مکالمہ کے وقت بیوی موجود تھی لہٰذا یہ معاملہ دیانت سے نکل گیا اور شوہر کا ایک کی نیت کرنا غیر معتبر ہوگیا اور بیوی پر تین طلاق مغلظہ واقع ہوگئی۔

    تنقیح فتاوی حامدیہ صفحہ / ۳۴میں ہے لاتصدق فی ذالک قضاءً ، لانہ مامور باتباع الظاہر، واللہ اعلم بسرائرہ ، ولایصدق انہ قصد التاکید الا بیمینہ ، لان کل موضع یکون القول منہ قولہ: انما یصدق مع الیمین (ثم الیٰ قولہ) ان المرأة کالقاضی فلاتحل لہا ان تمکنہ اذا سمعت منہ ذالک وعلمت لانہا لاتعلم الا الظاہر ۔

    حضرت مفتی نظام الدین علیہ الرحمہ سابق مفتی دارالعلوم دیوبند کا اسی مسئلہ پر بہت مفصل جواب منتخبات نظام الفتاویٰ صفحہ/ ۱۶۹، جلد/۲میں چھپا ہوا ۔ یہ مجموعہ ایفا پبلیکیشنز نئی دہلی سے شائع ہوا ہے اسے بھی ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند